بے دست وپا نظام عدل!۔۔۔ تحریر :نعیم قاسم

چھبیسویں آئینی ترمیم کو جس دھونس، دھاندلی، دباؤ، لالچ اور ترغیب کے بل بوتے پر منظور کرایا گیا ہے اسے کسی طرح بھی قابل تحسین فعل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے تحریک انصاف کے گیارہ سے زائد پارلیمنٹیرنز کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں کچھ تجزیہ کار ایسے بے ضمیر افراد کی تعداد بائیس کے قریب بتا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو دعویٰ کر رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کی حمایت کے بغیر بھی حکومتی اتحاد اس پوزیشن میں تھا کہ یہ آئینی ترامیم منظور کرا لیتا چلیں ماضی میں جس طرح پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے ممبران کو لوٹا بنایا جاتا تھا آج اسی عمل کو قاضی فائز عیسی کی مدد سے پیپلز پارٹی اور حکمران اتحاد نے مستحسن قرار دیا ہے تو ان شا اللہ یہ روایت مستقل میں بھی برقرار رہے گی اور حکمران اتحاد کے ممبران بھی کبھی اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ دیں گے تو انہیں لوٹا نہیں کہا جائے گا جب سے پی ڈی ایم اور موجودہ حکومت قائم ہوئی ہے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو در غور اعتنا جان کر ان پر نہ تو الیکشن کمیشن نے عمل کیا اور نہ ہی حکومتی اداروں نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں نوے روز میں الیکشن نہیں کروائے گئے مخصوص نشستوں کے فل کورٹ کے فیصلے کو بھی الیکشن کمیشن نے جوتے کی نوک پر رکھا اور بالآخر سپریم کورٹ کی آزادی، وقار اور مکمل عدل و انصاف فراہم کرنے کے حق کو سلب کر لیا گیا اب ممکن نہیں رہا ہے کہ ریاست کو فریق بنا کر کوئی سائل اپنے بنیادی حقوق کا تحفظ کر پائے اگر جج صاحبان کو یقین ہو کہ کسی شہری کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور وہ حق پر ہے لیکن وہ ٹیکنیکل بنیاد پر ریاستی قوانین کے جبر کا شکار ہے تو جج صاحب اس کو انصاف نہیں دے سکیں گے جیسا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے میں سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کو وہ ریلیف دیا جسکی درخواست نہیں کی گئی تھی مگر جج صاحبان نے اس ناانصافی کے ازالے کے لیے اسے پارٹی تسلیم کرنے کے ساتھ مخصوص نشستیں دینے کا حکم جاری کیا مگر الیکشن کمیشن حکومت، قاضی فائز عیسی اور اقلیتی ججوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا حکومتی کاسہ لیسوں نے ان ججز کی خوب تضحیک کی اور یہ کہا کہ ججز اپنے ضمیر کی آواز پر کسی کو بھی عدل و انصاف نہیں دے سکتے ہیں اور جو قانون کے مطابق ریلف دیا جا سکتا ہے وہی دیا جائے یعنی سپریم کورٹ کا جج منصف نہیں ہو گا بلکہ by books فیصلہ کرنے والا سول جج ہو گا وہ کسی بھی ناانصافی کے خلاف سوموٹو نہیں لے سکتا ہے الیکشن کمیشن جتنی مرضی دھاندلی کرے فارم 47 کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر الیکشن کمیشن یا کسی حکومتی ادارے کے افسر کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کی الیکشن کمیشن کی اپیل پانچ رکنی آئینی بنچ کرے گا اور وہ بنچ حکومت کے حامی ججوں کا ہو گا تو کیسے کوئی جج الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کے خلاف آئین اور قانون کی خلاف ورزی پر ایکشن لے گا اگر وہ ایسا کرے گا تو جوڈیشل کمیشن میں حکومت کے حامی ممبران کی اکثریت اسے بنچ سے الگ کر دے گی تو چیف جسٹس اور ممبر جج صاحبان کچھ بھی نہیں کر سکیں گے لہذا اب ریاست اور حکومت کے خلاف کسی بھی پاکستانی کو انصاف مل پائے گا تو ایسا ممکن نہیں ہے اب بیوروکریٹک اور ارسٹوکریٹ ہابریڈ نظام حکومت کے اختیارات کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے انسانی حقوق جسکا آئین تحفظ دیتا ہے یہ اب محض کتابی باتیں رہیں گی جمہور کے نام پر اعلی عدلیہ کو بے دست وپا کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ قاضی فائز عیسی کا ہے جہنوں نے اپنی منتقم پسندانہ مزاج سے ایک طرف تحریک انصاف کو تباہ و برباد کیا ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے ادارے کو بھی بے حد کمزور کر دیا ہے جسٹس منصور علی شاہ جہنوں نے قاضی پر برے وقت میں ساتھ دیا اسے بھی ڈس لیا مگر وفاداری نبھائی تو شریف خاندان کے ساتھ پہلے انہیں حدیبیہ پیپر ملز کے ٹائم بار مقدمے کی سماعت کر کے انہیں ریلیف دیا پھر نواز شریف کی تا حیات نا اہلی ختم کی اور تحریک انصاف سے بلے کانشان لے کر مسلم لیگ ن کو کھلا میدان دیا مگر پھر بھی وہ عوام کی حمایت سے محروم رہے تو پھر الیکشن کمیشن نے فارم 47 پر ان کی جیت کا بندوبست کیا اور اس احسان پر نواز شریف کیسے اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کر سکتے تھے کہ انہیں وزیر اعظم بنائیں اس ملک کا المیہ ہے کہ جب بونے بڑے عہدوں پر پر براجمان ہو جاتے ہیں تو وہ طاقت کے زعم میں سب کو روند کے رکھ دیتے ہیں چاہے اس ملک وقوم کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے آج تحریک انصاف اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان جس نوعیت کے نا خوشگوار، ناقابل رشک، ناقابل فہم اور معاندانہ تعلقات ہیں اسکی وجہ سے عوام کی اکثریت کے دلوں میں ان سب کے متعلق ایک ناپسندیدہ رائے بن چکی ہے دونوں طرف کے کٹر حامیوں کی دوسری بات ہے تحریک انصاف کے لیے عمران خان پیپلز پارٹی کے لیے بلا ول اور آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے لیے شہباز شریف، نواز شریف اور مریم نواز منزہ عن الخطا ہیں وہ خامیوں سے مبرا ہیں اور انہیں تضادات اور جاہلانہ رویوں کے باوجود حکمرانی کا پیدائشی حق ہے یہ رائے بھی بہت عام ہے بلکہ کافی حد تک حقیقت ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ ہوں، بیورو کریٹ ہو یا حکومتی وزراء ہوں پیسوں کی لالچ میں وہ پاکستان کے مفاد کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں سرکاری بنکوں کے قرضے ہڑپ کر لیتے ہیں بیوروکریٹس کی ٹرانسفر اور پوسٹنگز میں رشوت لیتے ہیں پراجیکٹس میں کک بیکس لیتے ہیں حکومت کو آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے تو کڑووں کی رشوت لے کر لوٹے بن جاتے ہیں عوام کے ذہنوں میں یہ بات بھی راسخ ہو چکی ہے کہ موجودہ حکمران تین دہائیوں سے حکومت پر قابض ہیں ان حکمرانوں کے پاس تو کھربوں کے اثاثے پوری دنیا میں قائم ہو گئے ہیں مگر ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر آئی ایم ایف کی غلامی کر رہا ہے اور عوام ان قرضوں کا بوجھ اتارنے کے لیے ناجائز ٹیکسوں کے نیچے کراہ رہی ہے مگر بدقسمتی سے انہی حکمرانوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ سیاسی کھلاڑی کرپٹ ہونے کے علاوہ نہ تو عوام کے حقیقی نمائندے ہیں اور نہ ہی اہلیت رکھتے ہیں کہ ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلا سکیی لہذا انتہائی مایوسی میں ہر پاکستانی غیر یقینی صورتحال کا شکار دکھائی دیتا ہے اس کے ذہن میں عجیب و غریب واہمے پیدا ہو رہے ہیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ملک کے اقتصادی مسائل حل ہونگے اور لوگوں کو روزگار، صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ سستے داموں میسر ہو گی کیا بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں داخلی استحکام حاصل ہو جائے گا ان سوالات کو سوچ کر عام پاکستانی کبھی خمینی کی حکمرانی کی بات کرتا ہے کبھی صدارتی نظام تو کبھی ٹیکنوکریٹس کی قومی حکومت تو کبھی صوبوں کی تقسیم کی باتیں عام ہونا شروع ہو جاتی ہیں اسطرح کی ناپختہ تدابیر منظر عام آنے کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام درست انداز میں نہیں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام عدم اطمینان کا شکار ہیں اور متبادل نظام حکومت کی بات کرتے ہیں سیاسی قیادت نے عوام کو بے حد مایوس کر دیا ہے حکومتی اداروں سے رشوت کے بغیر میرٹ پر کسی بھی کام کا حصول ناممکن تھا اور اس پر مستزاد کہ ان عدلیہ سے بھی حکومتی زیادتی کے خلاف انصاف حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گیا ہے پوری قوم کرپشن، مہنگائی، لاقانونیت، دہشت گردی بے روزگاری سے تنگ اور بیزار دکھائی دیتی اپوزیشن اور حکومت کی محاذ آرائی نے بھی سیاسی نظام کو عدم استحکام کا شکار کر رکھا ہے تحریک انصاف کو مخصوص نشتیی حکومت اور الیکشن کمیشن دینے پر تیار نہیں ہے عمران خان اور اس کے سینکڑوں کارکنوں پر لاتعداد مقدمات قائم ہیں ان کے ممبران کو جبر کے ذریعے حکومت کی حمایت پر مائل کر کے فارورڈ بلاک بنایا جا رہا ہے پہلے بھی ہمیشہ جب حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگاتی ہے تو سیاسی نظام ختم ہو جاتا ہے اور غیر سیاسی قوتیں اقتدار پر لمبے عرصے کے لیے قابض ہو جاتی ہیں اب بھی ایسا ہی ہے مسلم لیگ ن نے پہلے پیپلز پارٹی سے محاذ آرائی کو بڑھایا تو مشرف کا مارشل لاء آیا اب تحریک انصاف کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ہے تو جس دن تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئ جو ایک دن ہونی ہی ہونی ہے کیونکہ ملک کے معروضی حالات کا تقاضا ہے اور مغربی بارڈر پر سیکیورٹی کی نازک صورتحال ہے تو ایسے میں جب تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں ملک وقوم کی سالمیت کے لیے تعاون کی اہمیت کو محسوس کیا جائے گا تو پھر مسلم لیگ ن کہا جائے گی جب ملک میں تحریک انصاف کسی نئے سیاسی الائنس میں شامل ہو جائے گی جسکو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو حکمران اتحاد نے چھبیسویں آئینی ترامیم کے ساتھ جس طرح اعلی عدلیہ کو بے دست وپا کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے ایسا تو ڈکٹیٹر شپ میں ہوتا ہے جب بنیادی انسانی حقوق اور مکمل انصاف تک عام آدمی کی رسائی چھین لی جائے آج ملک پر ایک غیر منصفانہ سیاسی اقتصادی، سماجی اور عدالتی نظام مسلط ہو گیا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہے “تم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے” اس کے ساتھ متصل ہی قرآن کہتا ہے “پس ہم نے تمہیں اس گڑھے سے نکال لیا اور بچا لیا” میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچنے کے مترادف ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس آیت مبارکہ کے اگلے الفاظ جن میں گڑھے سے بچانے کی بشارت ہے وہ پر صادق آجائے لیکن اس کا حل ارباب بست و کشاد کے پاس ہے اور اس قوم کا رجل رشید جہاں بھی موجود ہے وہ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کرملک وقوم کی ڈوبتی کشتی کو کنارے پر لگانے کے لیے اپنا قومی فریضہ ایمانداری سے تعصب سے بالاتر ہو کر انجام دے تا کہ ملک کے تمام اداروں میں توازن برقرار رہے اور اعلی عدلیہ کی آزادی اور قانون کی پاسداری سب اداروں اور شخصیات پر لازم ہو کیونکہ دنیا میں وہی اقوام ترقی کی منازل طے کر تی ہیں جو آئین اور قانون پر عملدرآمد کرتی ہیں اور ہر ایک کے لیے قانون یکساں ہوتا ہے چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور یہی سبق ہمارے مذہب میں ملتا ہے کہ پیغمبر خدا نے ہر ایک سے انصاف کا سبق دیا ہے مگر ہمارے ملک میں منصف سے مکمل انصاف کے اختیارات ہی واپس لے لیے گئے ہیں تو عوام کس کا دروازہ کھٹکھٹائے گے