26ویں آئینی ترمیم کی منظوری فتح کس کی ؟ ۔۔۔تحریر : عمران ظہور غازی

سیاست کے بڑوں اور اداروں میں کشمکش کا نتیجہ ۔ 26ویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آیا ہے ور اس کشمکش میں فتح اسٹیبلشمنٹ کی ہوئی۔
۔ سیاسی ماہرین کے نزدیک 26ویں آئینی ترمیم کے باوجود عدم استحکام اور عدم اعتماد کے نئے دروازے کھلیں گے اوریہ سلسلہ رکنے کا نہیں
۔ یہ عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں تقسیم در تقسیم کا فطری نتیجہ ہے۔
۔ پارلیمان اور عدلیہ کی آزادی تمام اسٹیک ہولڈرز کی آئین وقانون کی پابندی اور اس پرعملدرآمد سے مشروط ہے، اسٹیک ہولڈرز آئین وقانون کی پابندی کرتے ہیں اور نہ انہیں مقدم رکھتے ہیں تو یہ چوہے بلی کا کھیل جاری رہے گا۔
۔ عدلیہ میں تقسیم کے سبب ہی عدلیہ پرشب خون مارنے کا موقع فراہم ہوا ہے،آئین وقانون سے ا نحراف نہ صرف ملک بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئےمشکلات کا باعث ہوتا ہے۔آئین وقانون کی بالادستی سے ہی سب کی عزت اور وقار قائم رہتا ہے اور آئین وقانون کی پامالی کے راستے مسدود ہوتے ہیں۔
۔ حکومت نے ریاستی طاقت اور جبر کے ذریعے دوتہائی اکثریت کا سامان کر لیا ہے۔
۔ پارلیمان کی دوتہائی اکثریت کے ذریعےپارلیمان کی بے توقیری اور بے وقعتی کا سامان کیا گیا ہے نا کہ پارلیمان کی آزادی اور طاقت کا،
فارم 47 کے ذریعے تشکیل پانے والی حکومت نے دو تہائی اکثریت کے ذریعے آئینی ترمیم تو پاس کر لی ہے لیکن یہ ترمیم شاید ملکی استحکام ، حالات کی بہتری اور سدھار کا ذریعہ نہیں بن پائے گی اور حکومت کیلئے بحرانوں کے نئے دروازے کھلیں گے پہلے بھی جب کہیں حکومت ایک بحران سے نکلنے کا سامان کرتی رہی ہے تو آگے ایک نیا بحران سر اٹھائے کھڑا ہوتا تھا اب بھی ایسے ہی لگتا ہے ، اچھاہوتا کہ حکومت سب کو اعتماد میں لے کر ترمیم کا راستہ لیتی، اس میں حکومت کا بھی بھلاتھااور ملک وقوم کا بھی۔
؏ منیر نیازی کے بقول
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار ا ترا تو میں نےدیکھا
۔ اچھا ہوتا اپوزیشن بھی جماعت اسلامی کی طرح پہلےدن سے ہی اس ترمیمی پیکج کو مسترد کر دیتی اور آج کم از کم عوام کے سامنے تو سرخرو ہوتی اور 1973 کا متفقہ آئین بھی محفوظ رہتا۔
۔ PTI اپنی مرضی سے ان مذاکرات میں شامل ہوئی اور اسے مذاکرات میں مصروف رکھ کر متنازعہ اور بدنیتی پر مبنی قانون سازی پر پردہ ڈالا گیا اور راستہ ہموار کیا گیا۔
۔ آزاد ،باوقار اور خوشحال پاکستان آئین وقانون کی بالادستی کے قیام کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اس میں شک نہیں کہ عدالتی اصلاحات ناگزیر ہیں ، ایسی اصلاحات جو نظام انصاف تک عوام کی رسائی کوسستا ، سہل اور آسان بنا دیں اور ایسی قانون سازی جس میں ملک وملت کےمفادات کی پاسداری ہو
۔ آئین وقانون میں اصلاحات وقت کا تقاضا ہے لیکن ایسی اصلاحات گروہوں کے مفادات کے تابع نہیں اصولوں کے تابع ہونی چاہئیں اور ایسی اصلاحات ہی ملک وملت کیلئے اتحاد ویکجہتی اور مضبوطی کا ذریعہ بنیں گی۔
سیاست کے بڑوں اور اداروں میں کشمکش کا نتیجہ ۔ 26ویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آیا ہے ور اس کشمکش میں فتح اسٹیبلشمنٹ کی ہوئی۔
۔ سیاسی ماہرین کے نزدیک 26ویں آئینی ترمیم کے باوجود عدم استحکام اور عدم اعتماد کے نئے دروازے کھلیں گے اوریہ سلسلہ رکنے کا نہیں
۔ یہ عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں تقسیم در تقسیم کا فطری نتیجہ ہے۔
۔ پارلیمان اور عدلیہ کی آزادی تمام اسٹیک ہولڈرز کی آئین وقانون کی پابندی اور اس پرعملدرآمد سے مشروط ہے، اسٹیک ہولڈرز آئین وقانون کی پابندی کرتے ہیں اور نہ انہیں مقدم رکھتے ہیں تو یہ چوہے بلی کا کھیل جاری رہے گا۔
۔ عدلیہ میں تقسیم کے سبب ہی عدلیہ پرشب خون مارنے کا موقع فراہم ہوا ہے،آئین وقانون سے ا نحراف نہ صرف ملک بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئےمشکلات کا باعث ہوتا ہے۔آئین وقانون کی بالادستی سے ہی سب کی عزت اور وقار قائم رہتا ہے اور آئین وقانون کی پامالی کے راستے مسدود ہوتے ہیں۔
۔ حکومت نے ریاستی طاقت اور جبر کے ذریعے دوتہائی اکثریت کا سامان کر لیا ہے۔
۔ پارلیمان کی دوتہائی اکثریت کے ذریعےپارلیمان کی بے توقیری اور بے وقعتی کا سامان کیا گیا ہے نا کہ پارلیمان کی آزادی اور طاقت کا،
فارم 47 کے ذریعے تشکیل پانے والی حکومت نے دو تہائی اکثریت کے ذریعے آئینی ترمیم تو پاس کر لی ہے لیکن یہ ترمیم شاید ملکی استحکام ، حالات کی بہتری اور سدھار کا ذریعہ نہیں بن پائے گی اور حکومت کیلئے بحرانوں کے نئے دروازے کھلیں گے پہلے بھی جب کہیں حکومت ایک بحران سے نکلنے کا سامان کرتی رہی ہے تو آگے ایک نیا بحران سر اٹھائے کھڑا ہوتا تھا اب بھی ایسے ہی لگتا ہے ، اچھاہوتا کہ حکومت سب کو اعتماد میں لے کر ترمیم کا راستہ لیتی، اس میں حکومت کا بھی بھلاتھااور ملک وقوم کا بھی۔
؏ منیر نیازی کے بقول
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار ا ترا تو میں نےدیکھا
۔ اچھا ہوتا اپوزیشن بھی جماعت اسلامی کی طرح پہلےدن سے ہی اس ترمیمی پیکج کو مسترد کر دیتی اور آج کم از کم عوام کے سامنے تو سرخرو ہوتی اور 1973 کا متفقہ آئین بھی محفوظ رہتا۔
۔ PTI اپنی مرضی سے ان مذاکرات میں شامل ہوئی اور اسے مذاکرات میں مصروف رکھ کر متنازعہ اور بدنیتی پر مبنی قانون سازی پر پردہ ڈالا گیا اور راستہ ہموار کیا گیا۔
۔ آزاد ،باوقار اور خوشحال پاکستان آئین وقانون کی بالادستی کے قیام کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اس میں شک نہیں کہ عدالتی اصلاحات ناگزیر ہیں ، ایسی اصلاحات جو نظام انصاف تک عوام کی رسائی کوسستا ، سہل اور آسان بنا دیں اور ایسی قانون سازی جس میں ملک وملت کےمفادات کی پاسداری ہو
۔ آئین وقانون میں اصلاحات وقت کا تقاضا ہے لیکن ایسی اصلاحات گروہوں کے مفادات کے تابع نہیں اصولوں کے تابع ہونی چاہئیں اور ایسی اصلاحات ہی ملک وملت کیلئے اتحاد ویکجہتی اور مضبوطی کا ذریعہ بنیں گی۔