حکومت کے پالیسی سازوں کو بالآخر یاد آگیا ہے کہ ریاستی رٹ کی بحالی اس کے قیام واستحکام کا اصل سبب اور ہدف نہیں۔ ریاستی رٹ کو تو تحریک انصاف بذاتِ خود دھرنے دیتے ہوئے للکارتی رہی ہے۔اس کی نقالی کی مگر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں میں ہمت نہیں۔عوام کو اب فقط دین کے نام پر ہی اشتعال دلایا جاسکتا ہے۔اس تناظر میں بھی لیکن حالات قابو سے باہر نکلتے محسوس ہوں تو مفتی منیب الرحمان صاحب کی فراست سے رجوع کرتے ہوئے معمولات زندگی بحال کروائے جاسکتے ہیں۔
حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد لہذا فیصلہ اب یہ کیا ہے کہ اسے اپنی توجہ کاملا 2008سے ایک دہائی تک اقتدار میں باریاں لینے والے افراد کے کڑے احتساب تک مرکوز رکھنا ہوگی۔احتساب کے عمل کو توانا وتیز تر بنانے کے لئے ایک اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب سے متعلق قوانین میں پیر کے روز اہم ترامیم کا اعلان کردیا گیا ہے۔ان ترامیم کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری اور شہباز شریف وغیرہ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت جو مقدمات چلائے جارہے ہیں ان میں نرمی کی گنجائش میسر نہ رہے۔
2018سے جو حکومت قائم ہوئی ہے اس کے لئے اقدامات کے خلاف تاہم نیب بدعنوانی کے الزامات نہیں لگاپائے گی۔ اقتدار میں آنے سے چند ماہ قبل ہی عمران خان صاحب کو ہماری سپریم کورٹ نے صادق وامین قرار دیا تھا۔ان کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت سے غلطیاں یقینا سرزد ہوسکتی ہیں۔بدعنوانی کا الزام مگر اس حکومت پر لگایا نہیں جاسکتا۔موجودہ حکومت کے معاشی فیصلے ویسے بھی آئی ایم ایف کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق ہورہے ہیں۔ڈالر کی قدر کا تعین مذکورہ ادارے کے نامزد کردہ گورنر سٹیٹ بینک کا اختیار ہے۔آئی ایم ایف سے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ہمیں 6ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہے۔یہ رقم مختلف اقساط میں ستمبر2022تک ملتی رہے گی۔ مذکورہ اقساط کے حصول کے لئے مگر لازمی ہے کہ بتدریج بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جائیں۔ پیٹرول کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔اس کی وجہ مگر مقامی نہیں بین الاقوامی ہے۔کرونا کی وبا سے نبردآزما ہونے کے بعد تیزی سے بحال ہوتی عالمی معیشت زیادہ سے زیادہ تیل کے حصول کی کوشش کررہی ہے۔طلب اور رسد کی بنیادی منطق پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی اصل ذمہ دار ہے۔معاشی پیش قدمی کی سہولت سے محروم ہوئی حکومت پربدعنوانی کے الزامات لگانا لہذا زیادتی تصور ہوگی۔ وفاقی کابینہ کو اب فکر ناٹ والے اعتماد کے ساتھ فیصلے لینا ہوں گے۔ان فیصلوں پر کامل عملدرآمد کے لئے سرکاری افسران کو بھی نیب کے خوف سے آزاد ہوجانا چاہیے۔
نیب قوانین میں اہم ترین ترمیم اس ادارے کے چیئرمین کی بابت ہوئی ہے۔ پرانے پاکستان میں فیصلہ ہوا تھا کہ جابر مگر انصاف پسندسلاطین جیسے اختیارات کے حامل چیئرمین کا ا نتخاب وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں موجود قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہو۔اپنے عہدے پر فائز ہوجانے کے بعد چیئرمین نیب ہر صورت اپنی معیادِ ملازمت پوری کرے۔ اس کے خلاف اعتراضات کا جائزہ فقط وہ بندوبست ہی لے جو اعلی عدالتوں میں بیٹھے ججوں کے خلاف لگائے الزامات کا جائزہ لیتا ہے۔پیر کے روز ہوئی ترمیم کے ذریعے یہ اختیار مگر سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے کر صدرِ مملکت کے سپرد کردیا گیا ہے۔یاد رہے کہ ہمارے آئین کے مطابق صدرِ پاکستان ازخود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا۔اسے ہر معاملے میںوزیر اعظم کی ہدایت درکار ہوتی ہے۔ چیئرمین نیب کی کارکردگی اگر وزیر اعظم کو مطمئن نہیں کرے گی تو وہ صدرِ پاکستان کو اسے ہٹانے کی ایڈوائس جاری کردیں گے۔ ان کی ہدایت پر عمل صدرِپاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے۔
موجودہ چیئرمین نیب کی معیادِ ملازمت ختم ہوچکی ہے۔ان کی جگہ کسی اور کاتعین مگر اس لئے نہیں ہوپایا کیونکہ ہمارے صادق وامین وزیر اعظم اس قائد حزب اختلاف یعنی شہباز شریف سے مشاور ت کو آمادہ نہ ہوئے جو بذاتِ خود نیب کے بنائے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔اس ضمن میں قانونی الجھنیں نمودار ہوئیں تو ان سے نجات کے لئے نیب آرڈیننس میں ترمیم ہوئی۔صدرِپاکستان کو چیئرمین نیب کی تعیناتی کا اختیار سونپ دیا گیا۔ صدر نے تاحکم ثانی جسٹس (ریٹائرڈ)جاوید اقبال کو ان کے منصب پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔اب انہیں ہٹانے کا اختیار بھی صدر مملکت کو مل گیا ہے۔سادہ ترین الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ پیر کے روز صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہوئی ترامیم کے بعد چیئرمین نیب وزیر اعظم کے ویسے ہی ماتحت بن جائیں گے جیسے مثال کے طورپر ان دنوں ایف آئی اے کے سربراہ ہیں۔ جاوید اقبال صاحب کو اپنی کارکردگی ہر صورت بہتر بنانا ہوگی۔اس ضمن میں شہزاد اکبر صاحب کی ہر ہدایت پر فورا عمل کرنا ہوگا۔
پیر کے روز نیب قوانین میں جن ترامیم کا اعلان ہوا ہے ان کی مزاحمت کا اپوزیشن جماعتوں میں حوصلہ ہی نہیں۔سرجھکائے سوجوتے اور سوپیاز کھاتے رہیں گے۔ ان جماعتوں سے وابستہ اراکین پارلیمان فقط اس امید پر زندہ ہیں کہ شہباز شریف صاحب پالیمان پر بالادست قوتوں سے مفاہمانہ بات چیت کے ذریعے خیر کی کوئی راہ دریافت کرلیں گے۔ پیپلز پارٹی والوں کو سب پہ بھاری کی مہارت بروئے کار آنے کا انتظار ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل البتہ اپنے اختیارات کھودینے سے خفاہوسکتی ہے۔وزیر قانون جناب فروغ نسیم صاحب مگر نیویں نیویں رہتے ہوئے اسے بھی رام کرسکتے ہیں۔
نیب پرحکومت کا کنٹرول کاملا قائم ہوچکا۔اب الیکشن کمیشن کو بھی راہِ راست پر لانا ہوگا۔گزشتہ چند ماہ سے وہ اپنی خودمختاری دکھانے کوتڑپ رہا ہے۔ دیکھتے ہیں اسے قابو میں لانے کے لئے حکومت کیا کارڈ کھیلتی ہے۔کارڈ وہ جو بھی کھیلے اس کی جیت مگر یقینی نظر آرہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت