’’اے اللہ ہمیں ہدایت دے ہدایت یافتہ لوگوں کی طرح اور ہمیں عافیت دے عافیت یافتہ لوگوں کی طرح۔ اور ہمیں دوست بنالے اپنے دوستوں کی طرح۔ اور برکت عطا فرما اس میں جو تونے ہمیں عطا کیا اور بچا اس برائی سے جو تو نے ہمارے لیے مقدر کی۔ پس تو ہی حکم کرتا ہے اور تیرے حکم کے اوپر نہیں جاسکتا کوئی۔ بے شک نہیں ذلیل ہوسکتا کوئی تیرے دوستوں میں سے اور نہیں عزت پاسکتا کوئی تیرے دشمنوں میں سے۔اے رب تو برکت والا ہے۔ اور بلندتر ہے۔ اور تجھ سے ہی بخشش چاہتے ہیں اور تیری طرف رجوع کرتے ہیں اور درود و سلام ہو نبی کریم ﷺ پر۔ اے اللہ بخش دے تمام مومن مردوں اورمومن عورتوں کو اور مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو اور الفت ڈال دے ہمارے دلوں میں اور آپس میں ہماری اصلاح کردے اور تیرے اور ہمارے دشمنوں پر ہماری مدد فرما۔ اے اللہ! ان کافروں پر لعنت کر۔ جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اورقتل کرتے ہیں تیرے دوستوں کو۔ اے اللہ ان کی باتوں میں اختلاف ڈال دے اور ان کے قدموں کو ڈگمگادے اور ان کو پریشان کردے اور ان کی جمعیت کو تتر بتر کردے۔ اور ان کے گھروں کو برباد کردے اور ان کے دروازوں کو توڑ دے اور ان کی عمارتوں کو مسمار کردے اور قریب کردے ان کی موت۔ اور عذاب نازل فرما جو لوٹنے والا نہ ہو۔ ان مجرم قوموں پر۔ اے اللہ ہم تجھ کو ان کے مقابل کرتے ہیں۔ اور ہم ان کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔‘‘
میں لاہور سے آکر اپنی مسجد صدیق اکبر بلاک 3 گلشن اقبال کراچی میں نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے اٹھنے کے بعد سجدے میں گرنے والا ہوں کہ امام صاحب کی آواز گونجی ہے۔ ’’اللّھم اھدنا فی من ھدیت‘‘۔ بہت سے سجدے میں جانے والے میری طرح کے واپس قیام میں آگئے ہیں۔ ہم سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین آمین کہہ رہے ہیں۔ میرے تصوّر میں غزہ کے شہداء آرہے ہیں۔ مسمار گھر ہیں۔ برباد اسپتال ہیں۔ بے حس بے ضمیر 54اسلامی ممالک ہیں۔ سفاک اسرائیل کی حمایت کرنے والے یہود و نصاریٰ ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی ویران صفیں ہیں۔ سینکڑوں بچوں کی سسکیاں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ ماؤں کی خالی گودیں۔ بہنوں کے بَین۔ ملبوں پر گرتے پڑتے نوجوان زخمیوں کو اٹھارہے ہیں۔ کہیں کوئی محمد بن قاسم ہے۔ نہ غازی صلاح الدین ایوبی۔ نہ ہی کہیں کمال اتاترک ہے۔ اگر ہیں تو اپنے ہی ہم وطنوں کی زبانیں کاٹنے والے۔ اپنے نوجوانوں کی تمنّائیں کچلنے والے۔ بغداد۔ طرابلس۔ عمان۔ ریاض۔ قاہرہ۔ دمشق کی سڑکیں اُداس ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے ملکوں میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔ دُعائے قنوت نازلہ۔ پورے عالم اسلام میں پڑھی جارہی ہے۔ نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد اور سجدے سے پہلے۔ اقبال یاد آرہے ہیں۔
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
کیا مسلمان ملکوں میں وقت قیام آگیا ہے۔ کیا ہمارے بادشاہ۔ صدور۔ سپہ سالار۔ وزرائے اعظم مسلمانوں کے ان مسلّمہ دشمنوں کے مقابل کھڑے رہیں گے۔ کیا مسلمانوں کی برّی افواج۔ فضائیہ۔ بحریہ۔ اپنے دنیاوی آقا امریکہ کی بجائے آقاؤں کے آقاکا فرمان سنیں گی۔ کیا ہم اپنے گھوڑوں کو تیار کرینگے۔ کیا ہماری توپوں کا رُخ اپنوں کی بجائے کافروں کی طرف ہوگا۔ کیا ہمارے سارے ماہرین۔ دانشور۔ جدید سائنسی علوم کے پروفیسرز آئندہ دس پندرہ سال کیلئے عسکری۔ معاشی۔ علمی روڈ میپ بنائیں گے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹے بیٹوں۔ پوتوں پوتیوں ۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوؤں دامادوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کا دن۔ دوپہر کے کھانے پر ان کے ساتھ بیٹھیں۔ نا اہل حکمرانوں نے ان کے ذہنوں میں ایک تذبذب پیدا کردیا ہے۔ وہ ان طفیلی ریاستوں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ عصر کی نماز کے بعد اپنے محلے والوںکے ساتھ بیٹھیں ۔ اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ بھی ہمسائیوں کے ساتھ گفتگو کا وقت نکالیں ۔ گلی محلے کی سطح پر بات کریں۔ شہر شہروں سے ہم سخن ہوں۔ ملک ملکوں سے حال احوال کریں۔ عالمی مافیاؤں کے بچھائے ہوئے ہم رنگ زمین دام کاٹنے ہیں۔ امیرملکوں نے انسانی ذہانت کو یرغمال بنالیا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کو جنم دیا۔ امریکہ نے گود لے لیا۔ بھارت نے اسے رضاعی بھائی مان لیا۔ سوویت یونین ایسے بحرانوں میں غریب مسلمان قوموں کی مدد کو آیا کرتا تھا۔ ہم نے افغانستان کے صحراؤں۔ میدانوں میں امریکہ کی خوشنودی کے لیے روس کو کابل سے بھگایا۔ اور کمیونزم کے انہدام کا سہرا اپنے سر باندھا۔ پھر امریکہ نے کمیونزم کے بعد اسلام کو اپنا ہدف بنالیا۔ 1980کی دہائی کے بعد دیکھ لیں کہ کس طرح اسلامی ملکوں کے عظیم خود مختار رہنماؤں کو ایک ایک کرکے اپنے ہی ہم وطنوں سے قتل کروایا۔
1947 میں بھی قائد اعظم نے فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کی حمایت کو اپنی پالیسی قرار دیا تھا۔ جنگ رمضان ہو یا دوسری جنگیں پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کا ساتھ دیا۔ پاکستان کے عسکری پائلٹ عرب جہاز اڑاتے رہے۔ پاکستان کوئی عام ملک نہیں ہے۔ لیکن اس بار فلسطین کے مظلوموں کے لیے ہماری آوازیں اس طرح بلند نہیں ہورہی ہیں۔ کیا ہماری پالیسی تبدیل ہورہی ہے یا ہمارے اپنے اندرونی مسائل ہمیں اس ظلم کے خلاف صف آرا ہونے سے روک رہے ہیں۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کو روکنے کیلئے امریکہ برطانیہ فرانس اور بھارت نے کیا کچھ نہیں کیا۔ مغرب نے ہمارے بم کو اسلامی بم قرار دیا۔ پاکستان میں طاقت تھی تو ہم نے چین کیلئے اقوام متحدہ کے دروازے کھلوائے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس میں سارے مسلم سربراہوں کو ہم نے لاہور میں اکٹھا کیا۔ امریکہ بھی افغانستان میں ہماری مدد کے بغیر داخل نہیں ہوسکا تھا۔ اس کے وہاں سے نکلنے میں بھی ہم نے مدد کی۔ آج ہم اپنی خودی کیوں نہیں پہچان رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تو ہماری ذہنی پختگی۔ عالمی شعور اور علاقائی اہمیت میں اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ ہم لنگڑا کیوں رہے ہیں۔ ہکلا کیوں رہے ہیں۔ ہم جنہیں اپنی دعائے قنوت نازلہ میں مجرم قومیں قرار دے رہے ہیں۔ ان کی مصنوعات کیوں درآمد کررہے ہیں۔ان کے پکائے کھانے کیوں کھارہے ہیں۔ ان کے سفیروں کو اپنے دارُالحکومتوں میں کیوں مصروفِ عمل رکھ رہے ہیں۔ دعاؤں کے ساتھ کچھ عمل کی ضرورت بھی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ