آئین کی بالادستی اور چیف جسٹس۔۔۔۔تحریر پروفیسر نعیم قاسم


بالآخر قاضی فائز عیسی اور ان کے ساتھی ججوں نے صدر عارف علوی اور الیکشن کمیشن کے درمیان عام انتخابات 8 فروری کو کرانے پر سمجھوتہ کرا دیا ہے یہ سپریم کورٹ کی عالی ظرفی کہ حکم دینے کی بجائے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت نے دو آئینی اداروں کے درمیان انتخابات کی تاریخ کے لیے سہولت کاری کی ہے ہر ادارہ آئین پر عملدرآمد کا پاپند ہے قاضی فائز عیسی کے ظرف کو سلام یہ وہی صدر ہیں جنہوں نے قاضی فائز عیسی کے خلاف جھوٹا ریفرنس بھیجنے میں لمحہ نہ لگایا عمران خان نے صدر بنایا مگر الیکشن کی تاریخ دینے پر ٹال مٹول کرتے رہے حالانکہ آئین کے تحت وہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی الیکشن کی تاریخ کا نوے روز میں اعلان کر سکتے تھے اور آرٹیکل 48 کے تحت انہیں تاریخ دینے کا مکمل اختیار تھا اور اگر الیکشن کمیشن ان کی بات نہ تسلیم کر تا تو وہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا سکتے تھے اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے درست کہا کہ الیکشن میں تاخیر کے ذمہ دار پیپلزپارٹی، الیکشن کمیشن اور صدرِ سمیت سبھی ہیں قاضی فائز عیسی نے چیف الیکشن کمشنر کو صدر سے مشاورت کے لئے ایوان صدر بھیجا حالانکہ وہ پہلے صدرِ سے ملاقات کو توہین آمیز لہجے میں مسترد کر چکے تھے پھر عدالت میں صدر کے الیکشن کی تاریخ کے منٹس پر صدر کے دستخط مانگ کر صدر کے آئینی منصب کے وقار کا تحفظ کرکے عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا جبکہ صدر نے ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا تھا جس طرح قاضی فائز عیسی آئین کی بالادستی کے لیے پرعزم دکھائی دے رہے ہیں وہ انتہائی قابل تحسین ہے عابد زبیری صاحب نے الیکشن ایکٹ کے ضمن میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے جو جواب دیا وہ عدالتی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے مترادف ہے “ہم سب آئین کے پابند ہیں عدالتی فیصلے تو مارشل لاء کو بھی جائز قرار دینے کے لکھے گئے ہیں لہذا ہم عدالتی فیصلوں کے حوالے سے فیصلوں کے پاپند نہیں ہیں” اس سے پہلے وہ ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ وہ ضیاء الحق کو صدر نہیں مانتے ہیں وہ سابق آرمی چیف تھے
جس طرح قاضی فائز عیسی اپنے ذاتی دکھ اور تکالیف الگ رکھتے ہوے آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق غیر جانبداری کے ساتھ فیصلے کر رہے ہیں تو ان کے متعلق یہی کہوں گا
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک پر یا تو مسلم لیگیوں نے نام، جماعتیں اور دھڑے بدل بدل کر حکومت کی ہے یا پھر تیس برس زیادہ مارشل لاء کی حکومتیں رہی ہیں ان فوجی ڈکٹیٹر ز کے اقتدار میں بھی مسلم لیگیو کی اکثریت شامل رہی ہے جو اپنے نظریات اور کردار کے حوالے سے اس ملک کے ہمالیائی مسائل حل کرنے کی اہلیت اور سکت ہی نہیں رکھتے تھے جس کے نتیجے میں. ملک اپنے قیام کے پچیس سال بعد دو لخت ہو گیا اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور آئندہ الیکشن کے بعد بھی انہی عاقبت نا اندیشوں نے ملک کو چلانا ہے تو پھر حالات کیسے بدل سکتے ہیں تیس تیس حکومتوں میں رہنے اور اپنے خاندان کی کایا کلپ کرنے والے اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ ملک کے مسائل کے حل کے لیے 15 سے بیس سال درکار ہیں ایسے ہی ارشاد عالیہ احسن اقبال صاحب کے ہیں اگر آنے والے وقتوں میں آزمائے ہوئے افراد کو ہی منتخب کر اکے ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ہمارے بزرجمہروں کی خوش فہمی ہو گی کہ یہ ملک ترقی اور خوشحالی کی پٹری پر چڑھ جائے گا اس ملک کے ساتھ ماضی میں کیا کیا تماشے ہوے ہیں سوچ کر رونگٹے کھڑ ے ہو جاتے ہیں جسٹس منیر نے ایوب خان کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو انعام کے طور پر ایوب خان نے وزیر قانون کے عہدے پر متمکن کردیا جب ایوب خان نے شہاب الدین کمشن کی سفارشات کو نظر انداز کر تے ہوئے اپنا شخصی آئین جسٹس منیر جیسے سیاہ پوش کرداروں سے تیار کروا کر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو جسٹس منیر سے پوچھا کہ اس آئین کے نفاذ کے لیے کیا جواز اور بنیاد ہو گی تو موصوف نے فرمایا کہ آپ موچی گیٹ میں ایک جلسہ کریں اور عوام کو بتائیں کہ میں نے آئین بنایا ہے جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے جو اس کو مانتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کر دیں لوگ ہاتھ کھڑا کر دیں گے اگر ضرورت ہوئی تو ایسا ہی ایک ڈرامہ قصہ خوانی بازار میں کر لیں تو اس طرح عوامی ریفرنڈم کے ذریعے آئین کی توثیق ہو جائے گی ایوب جیسا ڈکٹیٹر بھی اس مضحکہ خیز تجویز پر قہقہہ بلند کرنے سے باز نہیں رہ سکا تاہم ضیاء الحق نے مضحکہ خیز سوال کے ذریعے جعلی ریفرنڈم کے ذریعے اپنی صدارت کے لیے پانچ سال مزید بڑھا لیے تھے سوال کچھ یوں تھا کہ اگر آپ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو ضیاء الحق کو مزید پانچ سال کے لئے صدر تسلیم کر یں_اب کون مسلمان اسلامی نظام کی مخالفت میں ووٹ دے سکتا نتیجتاً عوام کی اکثریت پولنگ اسٹیشن پر گئ ہی نہیں جس پر حبیب جالب نے کہا
شہر میں ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
پھر پولنگ اسٹیشن پر متعین عملے نے بیلٹ پیپرز پر ہاں میں دھڑا دھڑ ٹھپے لگائے اور 94 فیصد عوام نے ضیاء الحق کو اگلے پانچ سال کے لئے صدر منتخب کر لیا شکر بصد شکر ہے کہ آج آرمڈ فورسزاور عدلیہ میں جسٹس منیر اور ضیاء الحق جیسے کرداروں کا باہمی گٹھ جوڑ نہیں ہے مگر پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوئی عمرانی معاہدہ موجود ہو بے شک انتخابات کی مدت چار سال کی ہو جائے مگر کوئی بھی جماعت منتخب حکومت کو اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنے دے اور معیشت کے متعلق جو اقدامات ایک حکومت اٹھائے، نئی حکومت ان کو ختم نہ کرے ہر آئینی ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے جیسا کہ موجودہ سپریم کورٹ نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو بلڈوز نہیں کریں گے اور بار بار چیف جسٹس وارننگ دے رہے کہ آئین سے انحراف کا آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس نہیں ہے مگر بصد عرض کرونگا کہ ایسی مثالیں ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس میں بھی دکھائی دینی چاہئیں نگران حکومتیں کس چیثیت میں نواز شریف کی سزا معطل کرنے کی مجاز ہیں
کیا اس طرح کا استثنا الطاف حسین اور ہمداخ بگتی وغیرہ کو مل سکتا ہے اگر وہ ملک میں واپس آکر قانون کے سامنے سرنڈر کر دیں
بہرحال سپریم کورٹ کے اہم فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے ع روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں