صوبائی خودمختاری کا پہلا تجربہ … تحریر : الطاف حسن قریشی


ایکٹ 1935 کے تحت 1937 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ خودمختار تھیں اور صوبوں کے منتخب سربراہ وزیرِاعظم کہلاتے تھے۔ 1936 کے اواخر میں کانگریس اور مسلم لیگ نے اپنے اپنے انتخابی منشور شائع کیے۔ مسلم لیگ نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر جمہوری طرز کی مکمل حکومتِ خوداختیاری کے قیام پر توجہ دی جائے۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے نمائندے اپنے تمام تر اختیارات اِس مقصد کیلئے استعمال کریں گے کہ ملکی ترقی کیلئے نئے دستور کی مراعات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ اِس ہدف کے حصول میں وہ ان تمام جماعتوں سے تعاون کریں گے جن کے نصب العین تقریبا یکساں ہوں۔ اِس موقع پر مسلم لیگ نے مسلمانوں سے استدعا کی کہ وہ معاشی یا کسی اور مفاد کیلئے اپنے آپ کو کسی طاقت کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔مسلم لیگ اور کانگریس کے انتخابی منشور دو نکات میں بڑے مختلف تھے۔ اول یہ کہ مسلم لیگ نے اردو زبان اور اردو رسم الخط کی حفاظت اور ترقی کا وعدہ کیا جبکہ کانگریس ہندی کو ہندوستان کی قومی زبان بنانے پر بضد رہی۔ دوم یہ کہ مسلم لیگ پورے عزمِ صمیم سے جداگانہ انتخاب کی حامی اور کانگریس اِس کے سخت مخالف تھی۔ اِسی لیے نہرو رِپورٹ میں مخلوط اِنتخاب کی سفارش کی گئی تھی۔ مسلم لیگ کے منشور میں کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو ہندو مسلم سمجھوتے کی راہ میں حائل ہو۔اِس بنا پر ایک غیرجانب دار تجزیہ نگار کوپ لینڈ نے اِس امر کی شہادت دی کہ مسلم لیگ کا منشور واضح طور پر تعاون کی ایک فراخ دلانہ پیش کش تھا۔ اگر کانگریس یہ پیش کش قبول کر لیتی، تو اِس امر کا بہت امکان تھا کہ پورا دستوری تنازع مثبت رخ اختیار کر لیتا۔بدقسمتی سے کانگریس نے دوستی کا ہاتھ حقارت سے جھٹک دیا اور اس کا اپنے دعوے پر اصرار بڑھتا گیا کہ صرف وہی پورے ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہے۔ انتخابات سے پہلے یوپی میں دونوں جماعتوں کے رہنما ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے اور یہ طے پا گیا تھا کہ کابینہ میں مسلمانوں کو معقول نمائندگی دی جائے گی، مگر انتخابات میں کامیابی کے بعد کانگریسی قیادت اِس معاہدے سے مکر گئی اور وزارت میں مسلمانوں کی شمولیت کیلئے یہ شرط رکھی کہ وہ کانگریس میں شامل ہو جائیں اور مسلم لیگ کی جداگانہ حیثیت ختم کر دیں۔ اِس نوع کی غیرسیاسی شرائط اور طرزِعمل کی وجہ سے اعتماد کا رشتہ ٹوٹتا گیا۔مسٹر جناح 1929 میں ہندو قیادت کے غیرجمہوری اور غیراخلاقی رویوں سے دلبرداشتہ ہو کر اِنگلستان منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ نوابزادہ لیاقت علی خاں کے اصرار پر 1936 میں واپس آئے اور اِتفاقِ رائے سے مسلم لیگ کے صدر چن لیے گئے۔ انہوں نے اسی سال مسلم لیگ کی تنظیمِ نوکیلئے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مقامی مسلم لیڈروں نے صوبوں میں اپنی سیاسی جماعتیں قائم کر لی ہیں اور وہ اِقتدار میں رہنے کیلئے کسی بھی گروہ سے تعاون کر سکتے ہیں۔ پنجاب میں سر فضل حسین نے یونینیسٹ پارٹی بنا رکھی تھی جبکہ بنگال میں مولوی فضل الحق نے کرشک پرجا پارٹی قائم کر لی تھی۔ سندھ گروہی سیاست میں بری طرح الجھا ہوا تھا اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں خان عبدالغفار خاں کی سرکردگی میں پختونوں نے کانگریس سے الحاق کیا ہوا تھا۔ حیرت کی بات یہ کہ مسلمانوں کی حیثیت صرف ان صوبوں میں بہتر تھی جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ 1937 کے انتخابات میں آسام صوبے میں مسلم لیگ نے اچھی خاصی نشستیں جیت لی تھیں اور یوپی میں 29 نشستیں اس کے حصے میں آئی تھیں۔ اس نے جن نشستوں پر انتخاب لڑا، ان میں سے تقریبا 80 فی صد اس کے ہاتھ آ گئی تھیں۔ سی پی میں ایک بھی مسلمان کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔کانگریس بڑی شدومد سے یہ دعوی کر رہی تھی کہ وہ پورے ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہے، حالانکہ 1936 کے دوران آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے 136ارکان میں سے صرف 6 مسلمان تھے۔ ان میں سے تین صوبہ سرحد سے، ایک یوپی، ایک بہار اور چھٹے مولانا ابوالکلام آزاد تھے جو کانگریس کے صدر رہ چکے تھے۔ 1937 کے انتخابات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کانگریس کو ہندووں کی بھی اکثریت حاصل نہیں تھی۔1937 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلیوں کے کل ارکان کی تعداد 1523 تھی جن کی تقسیم حسبِ ذیل تھی:عام ارکان 809، مسلمان 482، تجارت و صنعت 56، خواتین 41، مزدور 38، سکھ 34، یورپین 24، ہندوستانی عیسائی 20، اینگلو انڈین 11اور جامعات 8۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 211 ہندو نشستیں غیرکانگریسی ہندووں کے پاس چلی گئی تھیں۔ یوں کانگریس ہندووں کی بھی نمائندہ جماعت نہیں تھی۔ مسلم نشستوں کی ایک بڑی اکثریت سر فضل حسین کی یونینیسٹ پارٹی نے جیت لی۔ کانگریس نے صرف 58 مسلم نشستوں پر مقابلہ کیا جن میں سے صرف 4 نشستیں اسے مل سکیں۔ اِس طرح وہ صرف 5 فی صد مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھی اور مسلمانوں کے کلیدی صوبوں پنجاب اور بنگال میں بری طرح ناکام رہی تھی اور اِن صوبوں میں مسلمان امیدوار تلاش کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آئی تھی۔ یوپی میں صوبائی کانگریس کمیٹی کے صدر بھی ہار گئے تھے۔1937 کے عام انتخابات میں کانگریس کو صرف پانچ صوبوں میں واضح اکثریت حاصل ہوئی، مگر مختلف حربے استعمال کر کے وہ سات صوبوں میں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی جو دوسری جنگِ عظیم کے آغاز یعنی 1939 کے اوائل تک قائم رہیں۔ اِس دوران انہوں نے مسلمانوں پر ہر طرح کا ظلم ڈھانے میں انتہا کر دی تھی۔ اِس پر مسلم لیگ نے پیرپور رِپورٹ شائع کی جس سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک بھونچال آ گیا اور وہ مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہوتے گئے جو تیزی سے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی تھی۔دو سال کے تجربے نے ثابت کر دیا تھا کہ 1935 کے آئین میں اقلیتوں کو جو تحفظات فراہم کیے گئے ہیں، وہ محض سراب ہیں۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ