جذباتی اشتعال کے بعد : تحریر حسین حقانی


پاکستان میں سیاسی بحث پر جذبات ، خاص طور پر غصیلے اور اشتعال انگیز جذبات غالب رہتے ہیں۔ ملک میں ہوں یا بیرون ملک، پاکستانی ہمہ وقت حقیقی یا فرضی ناانصافیوں ، دنیا کی اہم طاقتوں کے رویے اور اپنی بےچارگی پر غصے سے آگ بگولا رہتے ہیں۔ آج کل وہ انتخابات کے التوا،اپنے پسندیدہ لیڈر کی گرفتاری، ناپسندیدہ لیڈر کی جیل سے رہائی ، اپنے مذہب اور مذہبی جذبات کی دوسروں کے ہاتھوں بے توقیری یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے اپنے مذہبی جذبات کے اظہارپر مشتعل ہیں۔ بیروزگاری، اشیائے صرف کی گرانی اور اپنے ملک کی کرنسی کی قدر میں گراوٹ پر بھی پاکستانی تلملاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد سے دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کو مشتعل رکھنا کچھ سیاسی رہنماؤں کی ترجیحی حکمت عملی ہے ۔ سوشل میڈیا کے دور میں غلط معلومات اور من گھڑت خبروں سے عوام کے غصے کی حقیقی وجوہات پر تیل چھڑکا جاسکتا ہے ۔ غصہ ایک فطری اور قابل فہم جذبہ ہے لیکن یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کردیتاہے ۔ غصے سے ہمہ وقت مغلوب شخص اکثر دوستوں کو کھو دیتا ہے ، اس سے خاندان والے گریز کرتے ہیں اور وہ بمشکل ہی اپنا کام درست طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے تو پھر سوشل میڈیا پر جس قوم کو مستقل طور پر غصے اور اشتعال کی حالت میں رکھا جائے ، وہ اپنے مسائل پر کس طرح قابو پاسکتی ہے ؟ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ غصہ اچھی چیز ہے کیوں کہ یہ لوگوں کو موجودہ نظام کو اٹھا کر پھینک دینے اورانقلاب لانے کی تحریک دیتا ہے ۔ لیکن انسانی تاریخ میں چند ایک ہی انقلاب آئے ہیں اور ان کی وجہ سے بھی نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ 1789 ء کے انقلاب فرانس کے نتیجے میں بے پناہ تشدد اور افراتفری دیکھنے میں آئی۔ 1917ء میں روسی انقلاب اشتراکیوں کے ظلم و جبر کا گواہ بنا۔ 1979 ء کے ایرانی انقلاب کے ذریعے شاہ ایران اور ان کی خفیہ پولیس سے تو جان چھڑا لی گئی لیکن اس کی جگہ ملائیت اور گروہی اجارہ داری نے لے لی ۔

قوموں کیلئے آگے بڑھنے کا بہتر راستہ نکالنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مفاد کا ٹھنڈے دل سے غیر جذباتی جائزہ لیں۔ وہ جان سکتی ہیں کہ ان کا مفاد کس سے وابستہ ہے ، اور پھر وہ اس سوچ کے مطابق معروضی تبدیلیاں کرسکتی ہیں ۔ بدقسمتی سے ایسا کرنا آسان نہیں۔ شعلہ بیان خطیب اکثرجذباتی اچھال پیدا کرکے معقول پالیسی سفارشات کا دھڑن تختہ کردیتے ہیں ۔ محروم اور پسماندہ طبقات کو معروضی استدلال کی بجائے جذباتیت زیادہ بھاتی ہے ۔ آزادی کے فوراً بعد بانیان پاکستا ن نے فیصلہ کیا کہ ملک کی فوجی اور اقتصادی ضروریات پوری کرنےکیلئے سرد جنگ میں مغرب کا ساتھ دینا بہتر ہوگا۔ اس دوران قومی جذبات کا جھکاؤ اسلام کی عالمگیر تحریک کی طرف تھا۔ مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ 1947ء کے بعد سے ایسے جذبات نے پاکستان کو یرغمال بنائے رکھا ہے ، بلکہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ان کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کے اتحاد سے پاکستان کی سیکورٹی ضروریات پوری نہیں ہوں گی، نیز پاکستانیوں کو بھارت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کے بعدزیادہ تر پاکستانی رہنماؤں نے عسکریت پسندی اور جنگی جنون کے حق میں عوامی جذبات سے کھیلنے کی پالیسی جاری رکھی حالانکہ اس سے قومی سلامتی یا خوشحالی کے فروغ میں کوئی فائدہ نہ ہوا۔

’’ہزار سال تک جنگ کرنے‘‘ یا ’’عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے‘‘کے نعرے لگا کر عوام سے داد وتحسین حاصل کرنا اور یہ دعوے کرنا کہ خدا ہمارے ساتھ ہے، بہت آسان ہے لیکن اس شخص کا ہم زبان کون ہوگا یا اس کے نعرے کون لگائے گا جو سوچ رہا ہو کہ کیا ہمارے پاس چند دنوں تک لڑنے کیلئے ہتھیار یا وسائل ہیں ؟ ۔ ایک پاکستانی شہر میں گھڑ سواروں کی ویڈیوز، جو فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں یا غزہ والوں کیساتھ ملکر لڑنے کا وعدہ کر رہے ہیں، بشرطیکہ حکومت اُنھیں وہاں جانیکی اجازت دے دے، کا مقصد محض سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ فارورڈز اور شیئرز حاصل کرنا ہے۔ بہت کم لوگ متوازن تجزیہ سننا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی ویڈیوز فارورڈ کرنیوالوں میں سے کوئی بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ مالاکنڈ سے گھڑ سوار غزہ تک کیسے پہنچیں گے؟ نیزوہ جدید ہتھیاروں کیخلاف کیا کر سکتے ہیں؟پاکستان بلاشبہ وہ واحد ملک نہیں جہاں قومی مفاد کیلئے معروضی تجزیے اور غیر جذباتی نتائج پر جذباتی نعرے بازی کو ترجیح دی جاتی ہو۔ 2015 ء میں یونان نے الیکس سپراس (Alexis Tsipras) کو جرمنی کیخلاف اس وقت جارحانہ بیانات دینے پر وزیر اعظم منتخب کیا جب ملک کو قرضوں کے بحران سے نکلنےکیلئے جرمنی کے تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔جذباتی طور پر دلیرانہ موقف اختیار کرنے پرسپراس کی مقبولیت بڑھی لیکن یونان میں بینک ڈپازٹس گر گئے، جس سے ملک کے معاشی بحران میں مزید اضافہ ہوا۔ بالآخرسپراس کی قیادت میں حکومت کو انتہائی کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل درآمد کرنا پڑا جن کی سپراس نے انتخابات میں مخالفت کی تھی ۔ اس طرح کے جذبات پر مبنی فیصلہ سازی کا موازنہ مشرقی ایشیائی ممالک بشمول چین اور جنوبی کوریا کے طرز عمل سے کریں۔ برسوں تک امریکہ کو عالمی سامراج کا گڑھ قرار دینے کے بعدچینی کمیونسٹ پارٹی کو اپنی معیشت کو جدید بنانےکیلئے 1979ء سے2016ء تک امریکیوں کیساتھ شراکت داری میں کوئی عار نہ تھا۔ جنوبی کوریا نے امریکہ کیساتھ محاذ آرائی سے گریز اور سابقہ دشمن جاپان کیساتھ تعاون کرکے 1950ء سے اب تک صرف 15بلین امریکی ڈالر کی مجموعی امداد کیساتھ خود کفیل معیشت قائم کرلی۔ پاکستان کو اسی عرصے کے دوران دو طرفہ امریکی امداد کی مد میں 40 بلین ڈالر موصول ہوئے لیکن یہاں مالی امداد کو محصولات بڑھانے کا متبادل سمجھ لیا گیا ۔ اس دوران جنگوں اور جہاد کے نعروں کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری کا سلسلہ رک چکا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ