شاعر مفکر فیض احمد فیض نے ایک بار کہا تھا، ’’جو کام پریس کو کرنا تھا وہ کراچی پریس کلب نے کر دکھایا یعنی آزادی اظہار کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا‘‘۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جنرل ضیاء کی 11سالہ آمریت میں جب بھی کسی شاعر، ادیب یا سیاستدان پر پابندی لگتی زبان بندی ہوتی تو کلب کے دروازے اس کیلئے کھول دیئے جاتے۔ ضیا کے دور میں جس طرح معاشرے میں نفرت نے جنم لیا، شعر و شاعری، ادب، ڈرامہ پر پابندی لگی ہم لسانیت اور فرقہ واریت کا شکار رہے اسکے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے آج کے نوجوان سے امید ہے، جس کی ایک جھلک مجھے پچھلے چند سال میں ’لٹریچر فیسٹیول، میں ان کی بھرپور شرکت سے نظر آتی ہے اور جس کا تمام تر کریڈٹ آرٹس کونسل کراچی اور اس کے صدر احمد شاہ کو جاتا ہے۔ شاید جو کام سندھ کے شاہ، پنجاب کے چوہدری، کے پی کے خان، بلوچستان کے سردار اور آزاد کشمیر کے حکمران نہ کرپائے وہ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک ’ شاہ‘ نے کر دکھایا۔تصور کریں70/80سال سے زائد عمر کے ’نوجوان‘ غازی صلاح الدین، نامور اداکار مصطفیٰ قریشی، منور سعید، کشور ناہید اور دیگر ادیبوں اور شاعروں نے پی آئی اے کی فلائٹوں کے نہ ہونے کے باوجود بسوں میں سفر کرکے سکھر کے نوجوانوں اور ہم خیال لوگوں میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔ جو منظر پچھلے تین دنوں میں اس تاریخی شہر کے شاندار IBAکیمپس میں دیکھنے کو ملا وہ سندھ میں ایک خاموش انقلاب سے کم نہیں۔ سب سے زیادہ خوشی، اس بات کی تھی کہ موضوع سیاست ہو، صحافت ہو فرسودہ روایات و رسمیں ہوں یاکچھ اور تمام سیشنز میں ان کی شرکت اور سوالات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ محفل موسیقی میں تو ظاہر ہے بھرپور شرکت ہوتی ہے مگر اس شہر کی تاریخ کے سب سے بڑے شو اور فیسٹیول میں کوئی ایک بھی ناخوشگوار واقعے کا نہ ہونا انتہائی خوش آئند تھا۔ سیکورٹی تو اچھی تھی مگر خود وہاں کے نوجوانوں، فیملیز نے کمال کر دکھایا۔’’سندھ‘‘ امن وامان کا گہوارہ رہا ہے یہاں کا نوجوان آج جو سوچ رہا ہے اسے ہمارے حکمران اور سیاستدان شاید سمجھ نہیں پا رہے جس کی خاصی حد تک نشاندہی دانشور نصیر میمن صاحب نے چند جملوں میں ہی کردی۔ ’’یہاں مسئلہ کچے کے ڈاکوؤں کا نہیں پکے کے ڈاکوؤں کا ہے۔ کچے کے ڈاکو تو ایک شخص کو اغوا کرکے تاوان کی صورت میں پچاس لاکھ یا کروڑ روپے لے لیتے ہیں مگر پکے کے ڈاکو ایک فائل پر دستخط کرکے کروڑوں روپے لے جاتے ہیں‘‘۔
’خاموش انقلاب‘ کی ابتدا آج سے15سال پہلے عالمی اردو کانفرنس سے ہوئی یہ وہ وقت تھا جب شاعر، ادیب، دانشور، پڑوسی ملک بھارت سے بھی آہی جاتے اب گزارا ’ ویڈیو لنک‘ سے ہو جاتا ہے بدقسمتی سے ’زباں بندی‘ اِدھر بھی ہے اور اُدھر بھی، کہیں اداروں کا خوف، کہیں انتہا پسند مودی کا خوف۔ مکالمہ کیا اب تو دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ سے بھی حکمران خوف زدہ رہتے ہیں۔ خیر اس اردو کانفرنس کی ایسی دھوم دنیا بھر میں پھیلی کہ یہ ایک سالانہ فیسٹیول بن گیا ملک بھر میں لٹریچر، ادب، ثقافت کے فروغ کیلئے کئی گروپس گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں مگر آرٹس کونسل کراچی نے چند سال پہلے ’پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘ کی جو بنیاد ڈالی اور ملک بھر میں اس کے انعقاد کا جو فیصلہ کیا اس سے یقینی طور پر ایک نئی سوچ نے جنم لیا کہ ضروری نہیں کہ ’تبدیلی‘ صرف سیاست میں آئے حکمرانوں کے احتساب اور جمہوریت کی سمت بہتر کرنے کا ایک موثر پلیٹ فارم یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔اس وقت چاروں صوبوں میں کئی چھوٹے بڑے شہروں میں اس طرح کے ’فیسٹیول‘ ہونے جا رہے ہیں اور کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح پانچ سالہ منصوبے بنائے جاتے ہیں (وہ تو خیر صرف پیپرز میں رہتے ہیں) مگر یہ کام وہ ہے جو ملک سے انتہا پسندی، نفرت کو ختم کرنے میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو شاید ’نیشنل ایکشن پلان‘ بھی نہ کر پائے۔ میراہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ ’کھیل اور ثقافت‘ دو ایسے ہتھیار ہیں جو بموں اور بندوق سے زیادہ موثر ہیں اور ان کو شکست دے سکتے ہیں اسی لیے وہ قوتیں جن کی سیاست ہی نفرت ہوتی ہے وہ ’ کھیل اور ثقافت‘ سے ڈرتی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اس ملک سےسب سے پہلے روشن خیالی اور ترقی پسند سوچ کے خلاف ’ایکشن پلان‘ تیار کیا گیا اور ابتدا ’اظہار رائے‘ اور آزادی صحافت ‘ پر پابندیاں لگا کر کی گئی پھر کمیونسٹ پارٹی، سرخ پوش تحریک جیسی جماعتوں اور سوچ کو ’’ غداری‘ سمجھا گیا ۔ ایسی سوچ رکھنے والے شاعروں، ادیبوں اور لکھاریوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ پھر ملک سے سینما کلچر ختم کیا گیا بقول جوش صاحب، ’’یہاں محبت کرنے والے گرفتار اور نفرت پھیلانے والے آزاد گھومتے ہیں‘‘۔ ایوب خان کے دور میں اس کی ابتدا اور جنرل ضیا کے دور میں انتہا دیکھنے کو ملی۔ مگر ضیا دور میں ہی اس آمرانہ طرز حکمرانی کے خلاف ابتدا پنجاب کے 10دانشوروں نے1983ء میں سندھ میں فوج کشی کیخلاف ایک بیان سے کی ’’یہ بند کرو نفرت پھیل رہی ہے‘ ۔ انہیں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے جس پر پھر حبیب جالب نے لکھا، ’’جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا‘۔ پنجاب سے ہی ’ فیض امن میلہ‘ نے مفاہمت شروع کی اور آج مجھے بھی یاد ہے جس انداز میں اس دور میں نوجوان نکل کر آئے۔ جو منظر میں نے سکھر میں دیکھا ایسا ہی کچھ ضیا دور میں فیض صاحب کا کلام اور اقبال بانو کی آواز ـ ’ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گےمیں دیکھنے کو ملا۔
سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے دنیا بھر میں طوفان برپا کردیا ہےArab Springسے لے کر موجودہ ’غزہ‘ کی صورتحال تک یہ ثابت کردیا ہے کہ پابندیاں مسائل کا حل نہیں لوگوں کو سچ بتانا ضروری ہے تم نہیں بتاؤ گے تو لوگ اپنا راستہ خود چنیں گے۔ اب یہ نوجوان محض نعرے بازی میں آنیوالا نہیں ہے، فیک نیوز کا مقابلہ صرف حقائق بتانے میں ہے۔ اب یہ بات جتنی جلدی‘ سب سمجھ لیں اتنا بہترہے ۔بقول عباس تابش
تاریخ ہے تو وہ بھی تمہاری لکھی ہوئی
اب تم بتاؤ گے ہمیں، غدار کون ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ