سانحہ فلسطین: پس چہ باید کرد : تحریر سلیم صافی


گزشتہ ڈیڑھ ماہ علالت کی وجہ سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے دور رہا تو ایک لحاظ سے اچھا رہا کہ فلسطین سے آنیوالے دردناک مناظر کی فوٹیج بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ جس طرح فلسطینی بچے قتل کئے جارہے ہیں، جس بربریت کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کی ماؤں بہنوں کو مارا جارہا ہے، وہ ہر منظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگرچہ اب کی بار پہل حماس نے کی ہے اور ایک رائے یہ ہے کہ ایران کی شہہ پر حماس نے یہ قدم اٹھا کر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی بہتری کے عمل کو سبوتاژ کروایا ہے لیکن بہ ہر صورت اسرائیل غاصب ہے اور غاصب کے خلاف زمین کے اصل حقدار (فلسطینیوں) کو اقدام کا حق حاصل ہے جبکہ دوسری طرف کمزور ہوکر بھی حماس نے زیادہ تر اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا ہے اور اسرائیل نے خود اپنے تین سو سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے لیکن اس کے جواب میں اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کے معصوم اور غیرجنگی بچوں اور خواتین تک کو ہزاروں کی تعداد میں لقمہ اجل بنا دیا ۔ دوسری طرف امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اسرائیل کی مذمت تو کیا کرتیں، جنگ بندی کی کوشش بھی نہیں کررہیں۔ غیروں سے کوئی کیا گلہ کرے کہ ہم نسل اور ہم مذہب ہونے کے باوجود مصرنے اپنی سرحد تک غزہ کے مظلوم مسلمانوں کیلئے بند کی ہے (واضح رہے کہ ہمارے ہاں بعض لوگ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن پر معترض ہیں لیکن نیشن اسٹیٹس کا تصور اتنی بڑی حقیقت بن چکا ہے کہ عرب اور مسلمان ہونے کے باوجود مصر اور دیگر پڑوسی فلسطینی مظلوموں کو پناہ دینے کے روادار نہیں اور اپنی سرحدیں ان کیلئے بند کی ہیں) ۔ فلسطین کے المیے کا دکھ صرف اس لئے نہیں کہ وہاں مظلوم انسانوں پر جارح اسرائیل ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے بلکہ بحیثیت مسلمان یہ ہم سب کیلئے کئی حوالوں سے مقدس سرزمین ہے۔بیت المقدس صرف اس لئے مقدس نہیں کہ وہ قبلہ اول ہے بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بیت المقدس کیلئے اس جگہ کا انتخاب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا جس کی تعمیر کا آغاز پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے کیا جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی ۔ جس طرح سرزمین حجاز اللّٰہ نے اپنی خدائی اسکیم کے تحت بنی اسماعیل کے حوالے کی اسی طرح سرزمین فلسطین بنی اسرائیل کے حوالے کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کی وجہ سے عیسائی بھی بیت المقدس کو مقدس مان کر اس پر اپنا حق جتاتے ہیں جبکہ یہودی اپنا حق جتاتے ہیں لیکن مسلمان فلسطینیوں کا حق اس لئے مقدم ہے کہ یہ نہ صرف قبلہ اول ہے بلکہ جن پیغمبروں کی اس سے نسبت رہی ہے، مسلمان ان سب کو نبی اور قابل احترام مانتے ہیں لیکن افسوس کہ آج کے مسلمان حکمرانوں نے اس قضیے کو صرف نہتے اور محصور فلسطینیوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ تاہم سوال یہ کہ پس چہ باید کرد یعنی اب کیا کیا جائے؟

جب بھی کیا کرنے کا سوال آتا ہے تو پہلے زمینی حقائق (نہ کہ حق اور عدل کیا ہے) کو دیکھا جاتا ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتیں اس لئے فلسطینیوں کی حمایت کررہی ہیں اور نہ کریں گی کیونکہ یہاں پر اسرائیلی ریاست کی بنیاد عالمی طاقتوں اور بالخصوص برطانیہ اور امریکہ نے خود ناجائز طور پر رکھی ہے ۔فلسطین تاریخی طور پر پیغمبروں کا مسکن اور مسلمانوں کے زیرکنٹرول رہا۔ مختصر عرصےکیلئے سنہ 1099میں اسے صلیبیوں نے فتح کیا لیکن بارہویں صدی میں اسے صلاح الدین ایوبی نے ان کے قبضے سے آزاد کرایا۔پھر یہ خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا لیکن بدقسمتی سے نہ صرف وقت کے ساتھ ساتھ خلافت عثمانیہ کمزور ہوتی رہی بلکہ پہلی جنگ عظیم نے اس کی پوزیشن کو کمزور تر کردیا ۔ دوسری طرف اس کے بعد فاتح ملکوں نے اس وقت لیگ آف نیشن کا ادارہ بنایا جو بعد میں اقوام متحدہ بنا۔ یہ لیگ آف نیشن انصاف یا عدل کے اصولوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے مابین امن اور توازن قائم کرنے کیلئے قائم کی گئی جس کاایک ثبوت بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور دینا بھی ہے۔ بدقسمتی سے لیگ آف نیشن نے برطانیہ کو اس وقت یہ اختیار دے دیا کہ وہ اپنے زیراثر علاقوں کو اپنی مرضی سے تقسیم کرلے اور برطانیہ ہی نے اعلان بالفور کے ذریعے فلسطین کے اندر اسرائیل کی ریاست کی بنیاد ڈالی جسے امریکہ وغیرہ کی پشتیبانی کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے چند ماہ بعد 1948میں باقاعدہ ریاست اور ممبر کے طور پر تسلیم کرلیاحالانکہ اس وقت یہاں پر یہودیوں کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ مزید بدقسمتی یہ رہی کہ مسلمان منتشر اور کمزور رہے اور مزید ہوتے گئے جبکہ مغربی ملکوں کے پاس دولت، ٹیکنالوجی اور جدید ترین اسلحہ آتا رہا ۔ خود اسرائیل نے ٹیکنالوجی اور اسلحہ کے لحاظ سے گزشتہ ستر برسوں میں عرب ممالک کے مقابلے میں بے انتہا فوقیت حاصل کی ۔عراق ایران جنگ اور پھر سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار نے بھی فلسطینیوں کو کمزور اور اسرائیل کو طاقتور بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر ماضی میں عربوں کے ساتھ جتنی بھی جنگیں ہوئیں، ان میں اسرائیل مزید علاقے پر قبضہ کرتا رہا جبکہ لبنان، شام اور مصرجیسے ممالک کیلئے بھی خطرہ بنتا رہا۔ اس تناظر میں وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس یا اس طرح کے ممالک جنگ کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے کیونکہ اسرائیلی ریاست قائم انہوں نے کی ہے اور ان ممالک یا پھر عرب ممالک کا ساتھ نہ ہو، تو فلسطینی قربانی کی نئی سے نئی تاریخ رقم کرتے رہیں گے لیکن انکے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا بلکہ حسب سابق ہر جنگ کی صورت میں وہ اپنے رقبے کو بڑھاتا اور مظلوم فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کرتا رہے گا اس لئے جذبات کو ایک طرف رکھ کر تمام مسلمانوں اور خود فلسطینی قیادت کو عقل اور حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے ۔ پہلی کوشش جنگ بندی کی ہونی چاہئے اور پھر سفارتی کوششوں کے ذریعے اس فارمولے کو عملی بنانے کی کوشش ہونی چاہئے جو سعودی فرماں روا شاہ عبداللّٰہ نے پیش کیا تھا۔اگرچہ اس وقت اسرائیل اور اس کی سرپرست مغربی طاقتیں کنگ عبداللّٰہ کے فارمولے پر عمل کیلئے بھی مشکل سے آمادہ ہوں گی لیکن اگر فلسطینی قیادت امن کا وقفہ حاصل کرلے اور مسلمان ممالک یک جان ہوکر سفارتی کوششیں کریں تو اس فارمولے کو عملی بنایا جاسکتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ جہاں تک حق اور جذبات کا تعلق ہے تو ہر مسلمان کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ فلسطینی سرزمین سے اسرائیل کا وجود مٹ جائے اور پورا فلسطین، فلسطینیوں کے ہاتھ میں آجائے لیکن ظاہر ہے کہ اس وقت عدل ممکن نہیں اس لئے حق کی بجائے ممکن کو حاصل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے تاکہ فلسطینیوں کو ظلم و بربریت سے نجات مل جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ