انگریزی کے بے بدل ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے اپنے کلاسیک المیہ ڈرامے ’’ہیملٹ‘‘ میں ڈنمارک کے حالات پر لکھا ہے “SOMETHING IS ROTTEN IN THE STATE OF DENMARK” ڈرامے میں ڈنمارک کی بادہشات میں ہونے والی سیاسی کرپشن، زوال اور انتقام کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ماضی کا ڈنمارک حال کے تضادستان جیسا تھا۔ ڈنمارک میں بھی سیاسی سازشوں، ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے اور انتقام کا دور دورہ تھا۔ آج کے تضادستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کی صحت اور اس کے رجحانات کا جائزہ لینا ہو تو لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا لیول دیکھ لیا جائے۔ فرض کریں کہ آج ہم معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والی گفتگو اور ڈائیلاگ کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم انتہائی زوال کا شکار ہیں، گالیاں ، طعنے، الزام اور سکینڈل ہمارے من پسند موضوعات ہیں۔ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ ہم مشرقی روایات اور خاندانی اقدار کے قائل ہونے کے باوجود آج کل’’ تُن دیو ‘‘اور’’ وڑ گیا‘‘ جیسی اصطلاحات سرعام استعمال کر رہے ہیں۔ ان الفاظ اوراصطلاحات سے جہاں ہماری اخلاقیات کی ترجمانی ہوتی ہے وہاں اس سے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں کہ ہم اپنی اگلی نسل اور اپنے خاندان کو کس طرح کا ورثہ منتقل کر رہے ہیں۔
بیماری کس حد تک ہمارے ہاں سرایت کر چکی ہے اس کا اندازہ افنان اللہ صاحب اور شیر افضل مروت صاحب کے درمیان ایک ٹی وی شو پر ہونے والی ہاتھا پائی کے ردعمل سے ہوتا ہے۔ کسی بھی صحت مند معاشرے میں ٹی وی پر ہونے والی اس لڑائی کو نہ صرف برا بھلا کہا جاتا بلکہ لڑائی میں حصہ لینے والوں کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی اپنی جگہ پر ان کا محاسبہ کیا جاتا تاکہ آئندہ کسی ٹی وی شو پر ایسی ہاتھا پائی اور لڑائی کی نوبت نہ آئے۔ مگر ہوا اس کے الٹ، تضادستان میں بیمار ذہنیتوں میں بحث یہ چھڑی رہی کہ افنان اللہ نے زیادہ مارا یا مروت نے زیادہ کُٹ لگائی، دونوں فریق یہ ثابت کرنے پر مصر تھے کہ ان کے ہیرو نے مخالف کو زیادہ مارا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس طرح کی سوچ کے ساتھ معاشرہ ہیملٹ کا ڈنمارک اور آج کا تضادستان نہیں بنے گا تو اور کیا بنے گا؟
معاشرتی حالات اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو کچھ معاشرے میں ہورہا ہوتا ہے اس کا زبان پر گہرا اثر پڑتا ہے، کہتے ہیں کہ مارشل لا کا دباؤ ہو یا سیاسی حبس ہو تو فحاشی بڑھ جاتی ہے، گالیاں فروغ پاتی ہیں، مزاح، لطائف اور جگتیں عام ہو جاتی ہیں۔ آج کے تضادستان پر حیدر علی آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ ؎
لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو سیاستدانوں کے نام بگاڑنے اور ان کا تمسخر اڑانے کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا، وہی تھے جنہوں نے اصغر خان کو آلو خان کا نام دیا، انہوں نے ہی مفتی محمود اور مولانا نورانی کی چھوٹی ’’ی ‘‘ نکالنے کی بات کی تھی،اسی دور میں ایک بار انہوں نے سٹیج پر گالی بھی دے ڈالی تھی۔ بہت عرصہ تک جیالا کلچر یہی تھا کہ دوسروں کی نہ سنو۔ اسی لئے پیپلز پارٹی کے مخالف اسے ’ہوجمالو‘ کلچر قرار دیا کرتے تھے۔ نواز شریف سیاست میں آئے تو بار بار کہا کرتے تھے کہ وہ شرافت کی سیاست کرتے ہیں مگر ان کی جماعت کے اندر بھی متوالا کلچر فروغ پایا وہ بھی کسی مخالف ادارے کی رائے یا دوسری جماعت کے اختلاف کے قائل نہ تھے۔ بے نظیر بھٹو کی جس طرح کردار کشی کی گئی اس نے بہت بری مثال قائم کی۔ سپریم کورٹ پر حملہ متوالوں کی اسی سوچ کا ترجمان تھا۔ کھلاڑی خان میدان میں اترے تو انہوں نے سیاسی مخالفوںکیلئے سخت ترین لہجہ اختیار کیا، وہ نجی محفلوں میں ہر اختلاف کرنے والے کو گالیوں سے نوازتے، سیاسی سٹیج پر انہوں نے بھٹو سے بھی آگے بڑھ کر نہ صرف اپنے سیاسی مخالفوں کا تمسخر اڑایا بلکہ اپنے انصافیوں میں اہل سیاست کیلئے نفرت بھر دی۔ انہوں نے آج تک کسی انصافی کو نہیں روکا کہ وہ گالیاں نہ دے، ٹرولنگ نہ کرے، لوگوں کے گھروں پر دھرنے نہ دے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کے تضادستان میں ’’وڑ گیا اور تُن دیو‘‘ روزمرہ کے ڈائیلاگ ہیں۔
سیاست دان قوم کے لیڈر ہوتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی اخلاقی اور سیاسی تربیت کریں، اگر کارکن کہیں غلط جا رہے ہیں تو لیڈر کو انہیں روکنا چاہیے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو سیاستدانوں، صحافیوں، جرنیلوں اور اپنے مخالفوں کو گالیاں دینے کی ڈھیل دے رکھی ہے۔ اس بات کے متعدد ثبوت ہیں کہ لیڈر شپ کی طرف سے اس رویے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کاش یہ سلسلہ رک جائے وگرنہ تحریک انصاف کے یہ بے عقل ہمدرد اگر اسی طرح گالی گلوچ اور دشنام طرازی سے کام لیتے رہے تو معاشرے میں اس کا ردعمل پیدا ہوگا، آج اسٹیبلشمنٹ کےتحریک انصاف مخالف رویے میں ان گالیوں کا بڑا ہاتھ ہے جو وقتاً فوقتاً فوج کی لیڈر شپ کو دی جاتی رہیں، اگر تو گالیوں سے مسائل حل ہو جاتے ہیں تو تحریک انصاف یہی پالیسی جاری رکھے وگرنہ اپنی پالیسی بدلے۔
سیاست کسے کہتے ہیں؟ اپنے دوستوں اور حامیوں کے بڑھانے کے عمل کو سیاست کہا جاتا ہے، گالیوں سے دوست نہیں دشمن بنتے ہیں۔ تحریک انصاف سیاست کرے، معاشرے کے مختلف طبقات کو دشمن نہ بنائے۔ کبھی کسی میڈیا گروپ کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور کبھی کسی اینکر پرسن کے پروگرام میں نہ جانے کی بات کی جاتی ہے، کب تک یہ احتجاجی اور ناراضی والا رویہ جاری رکھا جائے گا ،جب تک اس کو بدلا نہیں جاتا تحریک انصاف کو جگہ ملنی مشکل ہوتی جائے گی۔ہمیں علم ہے کہ کوئی بھی مرض لاعلاج نہیں ہوتا مگر وہ مریض ضرور لاعلاج ہوتا ہے جو یہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ بیمار ہے۔ شیزوفرینیا کے مریض اسی لئے بیماری سے نہیں نکل پاتے کہ وہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ انہیں کوئی بیماری ہے۔ بحیثیت مجموعی ،ہم سارا معاشرہ بیماری کا شکار ہیں اور اس پرطرہ یہ ہے کہ ہم یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ ہمیں کوئی بیماری ہے۔
صحت مند معاشروں کے صحت مند اور نارمل لوگ اپنے مخالفوں، غیر مذہبوں کو حتیٰ کہ باغیوں اور مجرموں کو بھی سانس لینے اور بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں ہم میں نفرت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ ہم ہر ایک کو ’’تُننا‘‘ چاہتے ہیں، ہر ایک کو’’ واڑنا‘‘ چاہتے ہیں۔ معاشرے اس طرح کی زبان اور اس طرح کے رویوں سے نہیں چلتے ہیں، دنیا نے جیو اور جینے دو کے اصول پر کاربند رہ کر ترقی کی ہے۔ یاد رکھنا چاہیےکہ معاشروں کو اس کی لیڈر شپ آگے لے کر جاتی ہے جب تک نواز شریف، عمران خان اور زرداری خود رواداری اور برداشت کو نہیں اپناتے اس وقت تک انکے پیر وکاربھی ان رویوں کے قائل نہیں ہونگے ،مقتدرہ کی قیادت کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ملک کو چلانے کیلئےنفرت سے کام نہیں چل سکتا بالآخر مصالحت اور قومی اتفاق رائے کا راستہ نکالنا ہوگا، قوم تقسیم رہی تو ریاست بھی منقسم رہے گی، قوم متحد ہوگئی تو ریاست مضبوط بھی ہوگی اور متحد بھی….
بشکریہ روزنامہ جنگ