غزہ؛ صحافیوں اور لکھاریوں کا مقتل … تحریر : تنویر قیصر شاہد


غزہ میں بروئے کار مزاحمتی فلسطینی تحریک حماس اور غاصب صہیونی اسرائیلی ریاست کے درمیان تازہ خونی تصادم کو آج 3 ہفتے گزرچکے ہیں۔

اِن ایام کے دوران اسرائیل کے تقریبا2ہزار شہری اور فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ فلسطینیوں کی شہادتیں 5ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں۔یعنی حماس و فلسطینیوں کا جانی نقصان اسرائیلیوں سے تین گنا ہے ۔ غزہ کی محبوس و محصور پٹی میں حماس اور فلسطینیوں کو مجموعی طور پر جو مالی و معاشی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے، اِس تباہی و بربادی کا ابھی تک کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا ہے ۔

بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ غاصب و ظالم صہیونی اسرائیلی ایئر فورس اور ٹینکوں کی بمباری نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے ۔
حماس نے اسرائیلی زیادتیوں اور مظالم سے تنگ آکر اِس مہلک جنگ کا آغاز کیا تھا، لیکن اب جب کہ غزہ کے نہتے مکین نہایت طاقتور اسرائیلی افواج کے ہلاکت خیز حملوں کا دن رات سامنا کررہے ہیں، غزہ کا کوئی قریہ و بازار اور اسپتال سلامت نہیں رہا، حماس کے مسلح جنگجو اور لیڈرز(بشمول اسماعیل ہنیہ) منظر سے غائب ہیں۔

فلسطین کے دونوں ہمسایہ مسلمان ممالک (مصر و اردن) نے مظلوم و مقہور فلسطینیوں پر سرحدیں سختی سے بند کررکھی ہیں تاکہ غزہ کے مسلمان فلسطینی مہاجر اندر داخل نہ ہو سکیں ۔ کوئی بیچارگی سی بیچارگی ہے!غاصب صہیونی اسرائیل کے ساتھ امریکا و یورپ کھل کر کھڑے ہیں اور اسے مزید ظلم کی شہ دے رہے ہیں جب کہ عالمِ اسلام کے حکمران اسرائیل کے مقابلے میں دبک کر بیٹھے ہیں۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ تازہ خونریز تصادم دراصل عالمِ اسلام اور عالمی میڈیا کے لیے ایک بڑی آزمائش لے کر طلوع ہوا ہے۔ مغربی و امریکی میڈیا کی غیر جانبدارانہ قلعی ایک بار پھر کھل گئی ہے کہ وہ بغیر کسی حجاب اور شرم کے سفاک اسرائیل کی ننگی حمائت میں کھڑا ہے۔بھارتی وزیر اعظم ، انڈین اسٹیبلشمنٹ اور ہندو میڈیا بھی اسرائیل کے حق میں اور فلسطینی مخالفت میں برہنہ ہو کر سامنے آ چکا ہے۔

حیرانی کی بات ہے کہ بھارت اور بھارتی میڈیا تو غزہ کے فدائین کی مخالفت میں کمربستہ ہے جب کہ نامور بھارتی اخبار نویس اور اینکر، برکھا دت، غزہ کے قرب و جوار میں خود جا کر جنگی نامہ نگاری کررہی ہیں ۔ اِس خاتون کی ہمت ہے کہ ہیلمٹ پہنے غزہ کے مکینوں کے خلاف اسرائیلی برستی گولیوں، گولوں اور میزائلوں کے عین درمیان رہ کر Live Coverageکر رہی ہیں۔

ہمارے لیے زیادہ باعثِ حیرت بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کا حامی پاکستانی میڈیا اور پاکستان کے اخبار نویس اور اینکرز غزہ پہنچے ہیں نہ غزہ کے آس پاس۔ ہمارے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے پاس جتنی بھی معلومات ہیں ، مانگے تانگے کی ہیں۔

عاریتا اور محض غیروں کی فراہم کردہ ۔ اب یہ غیروں پر منحصر ہے کہ وہ فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک ، فلسطینیوں کے جانی و مالی نقصان اورحماس کی کامیابیوں اور موقف بارے کتنا سچ ہم تک پہنچاتے ہیں ۔

حماس اور اسرائیل کے تازہ خونی تصادم میں ایک بار پھر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ امریکا و مغربی ممالک کے میڈیا (جس پر یہودی و صہیونی گرفت بے انتہا مضبوط ہے)میں فلسطینیوں اور حماس کی ذرا سی حمائت میں بولنے والوں کو برداشت نہیں کیا جا رہا ۔

طاقتور عالمی میڈیا کی یہ واضح جانبداری ظلم بھی ہے ، سچ کا قتل بھی اور مسلمانوں سے عناد بھی ۔ اِس پس منظر میں کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم میں کمی آنے کے بجائے ، اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے ؟اِسے مغربی ممالک اور عالمی میڈیا کا تعصب اور مسلم دشمنی ہی کہا جائے گا کہ معروف فلسطینی ایوارڈ یافتہ مصنفہ ، ادانیا شبلی، کو نہ صرف ایوارڈ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے بلکہ ادانیا صاحبہ اور ان کی کتاب کے جرمن مترجم (Gunther Orth) کو فرینکفرٹ( جرمنی) میں منعقدہ عالمی ادبی و کتاب میلے میں شرکت سے بھی منع کر دیا گیا ہے ۔

ادانیا شبلی کو ان کی کتاب Minor Detailکو رواں برس کے لیے ادبی انعام کا حقدار قرار دیا گیا تھا اور ادانیا کو18اکتوبر2023کو فرینکفرٹ کتاب میلے میں یہ انعام دیا جانا تھا ، مگر تازہ حماس و اسرائیلی تصادم اور صہیونی دباو نے ادانیا کو اِس انعام سے محروم کر دیا ہے ۔ اِس تعصب پر دنیا کے350سے زائد مصنفوں، پبلشروںاور ایڈیٹروں نے جرمنی کو احتجاجی خط بھی لکھا ہے مگر انعامی انتظامی کمیٹی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔

یہ تعصب صرف جرمنی تک ہی محدود نہیں رہ گیا بلکہ اِس کا دائرہ اثر امریکا تک بھی پہنچ گیا ہے ۔ حماس و اسرائیل تصادم کے پس منظر میں سرایت کرنے والے اِس مسموم متعصبانہ رویے اور سوچ نے امریکا کے کئی معروف مسلمان صحافیوں اور اینکروں کو ملازمتوں سے بھی محروم کر دیا ہے ۔

مثال کے طور پر مہدی حسن، ایمن محی الدین اور علی ویلشی ۔اسرائیل و فلسطین کے درمیان جاری جنگ کے دوران امریکی نشریاتی اداروں نے اِن تینوں مسلمان اینکروں کو معطل کر دیا ہے ۔ دوسری جانب اسرائیلی حکام نے مشہور عرب ٹی وی الجزیرہ کو بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے، مگر اِس دھمکی پر امریکا ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک خاموش ہیں ۔

مہدی حسن معروف برطانوی مسلمان اینکر ہیں اور آجکل امریکی ٹی وی MSNBCسے وابستہ اور مقبول ترین مہدی حسن ٹاک شو کے میزبان تھے ۔

ایمن محی الدین مصری نژاد امریکی مسلمان ہیں اور امریکی ٹی ویNBCپر ٹاک شو کررہے تھے ۔علی ویلشی کینیا نژاد کینیڈین مسلمان ہیں اور وہ بھی ایک مشہور امریکی ٹی وی پر اینکر کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ اب یہ سب امریکی ٹی وی اسکرینوں سے غائب کر دیے گئے ہیں۔ یہ ہے امریکی اور کینیڈین عالمی میڈیا کے کرتوت جو آئے روز ہمیں اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتے ۔

ایک ہی جھٹکے نے امریکی ومغربی میڈیا کی اصلیت اور عصبیت کی قلعی کھول دی ہے ۔ اپنے گریبان میں مگر جھانکتے ہوئے اِسے پھر بھی شرم نہیں آتی ۔ فلسطینی حماس اور اسرائیل تازہ خونی تصادم میں ایک درجن سے زائد فلسطینی صحافی اسرائیلی گولیوں اور گولوں کا نشانہ بن کر جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں ، مگر مجال ہے۔

اِن مقتول فلسطینی اینکروں اور اخبار نویسوں کا ذکر عالمی میڈیا کی زبان پر آئے !غزہ کی کربلا میں شہید ہونے والے اِن مجاہد فلسطینی صحافیوں میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یوں ہیں:سعید التاویل ، محمد صبح، ہشام النواجہ، ابراہیم محمد لافی، محمد جرغون، محمد الصالحی، ندال الواحدی اور حاتم عبدالواحد۔غزہ کی معروف شاعرہ اور ناول نگار،حبہ ابوندا،بھی غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں شہید ہو چکی ہیں ۔

معروف فلسطینی براڈ کاسٹر رمی الشریفی ( زمان ریڈیو کے ڈائریکٹر) اور باصل خیر ( القدس ٹوڈے ) کے صحافی کے گھر اور دفاتر اسرائیلی ایئر فورس نے مکمل طور پر تباہ کر ڈالے ہیں ۔ فلسطینی صحافی، فراز لطفی، نے سی این این کو غزہ کے صحافیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کی جو داستان سنائی ہے، اسے سن کر آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین اور غزہ کا ہر مرد، خاتون اور بچہ ہر روز اسرائیلی زیادتیوں کا ہدف بن رہا ہے مگر فیصلہ کن عالمی قوتیں دانستہ خاموش ہیں۔ اِس عالمی بے حسی اور بے شرمی کا مطلب مگر یہ نہیں ہے کہ فلسطینی مزاحمتوں سے دستکش ہو جائیں گے۔ بقول فیض احمد فیض:قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم/ اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس