خرابی کی جڑ … تحریر : نوید چوہدری


میڈیا اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے جن باغی ٹاؤٹوں کو پکڑ کر سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کے لیے لے جایا جا رہا ہے ان کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے بس ادارے کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی باقی جو چاہو وہ کرو، معاشرے میں مسلسل برقرار رہنے والی غیر یقینی کی بنیادی وجہ یہی ہے، ادارے کا تجزیہ ہے کہ اپنے ان میڈیائی ایجادات کے ذریعے سول حکومت یا آنے والی منتخب حکومت کو اوقات میں رکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب وہ ہم خیال جج ہیں جو نو مئی کے بعد بھی باز نہیں آئے لیکن یہ دلیری نہیں پیش بندی ہے کیونکہ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ جمہوری عمل آگے بڑھا تو ان کے احتساب کی باری بھی آ سکتی ہے، اس لیے ایسے فیصلے دئیے جا ر ہے ہیں کہ جن سے فوج اشتعال میں آ کر مارشل لا لگانے پر مجبور ہو جائے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت آئین پسند ججوں کی چھٹی ہو جائے، بندیال کی ساس کی مشہور زمانہ فون کال سے یہ تو ثابت ہو چکا کہ ہم خیال جج اور ان کی فیملیاں مارشل لا لگوانے کو زیادہ بہتر آپشن سمجھتی ہیں اور اس کے لیے عملی کوششیں بھی کر رہی ہیں جس سے ملک کا بے حد نقصان ہو رہا ہے۔ دوسری جانب نواز شریف کو اگر واپس لایا گیا ہے تو یہ محض ڈیل نہیں بلکہ سٹیک ہولڈر محسوس کر رہے تھے کہ ملکی معاملات آگے بڑھانے کے لیے تین مرتبہ کے وزیر اعظم کو واپس لانا ناگزیر ہو گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ ابتدائی رابطے ہونے پر ہی نواز شریف نے واضح کر دیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا پھیلایا گند خود صاف کرنا ہو گا، پتہ نہیں کوئی منصوبہ ہے یا مصلحت، گند اب تک صاف نہیں کیا گیا، نواز شریف نے واپسی کے موقع پر مینار پاکستان میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کر کے اپنی سیاسی حیثیت منوا لی، ان کی تقریر ایک مدبر کا خطاب تھی، ابھی تک تو یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی طرح کی محاذ آرائی میں پڑنا نہیں چاہتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے، ابھی تک تو یہی منظر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میڈیا اور عدلیہ کے حوالے سے سول حکومت کے ساتھ اس طرح کھڑی ہونے پر تیار نہیں جس طرح پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی تھی، اگر آنے والے دنوں میں یہی رویہ رہا تو سول حکومت آسانی سے نہیں چل پائے گی، ثاقب نثار کی باقیات ہم خیال جج صرف سپریم کورٹ میں ہی نہیں، لاہور، اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹس بھی بھری پڑی ہیں، نو مئی کے حملوں میں ملوث پی ٹی آئی کے کارکنوں کا بعض ججوں کی جانب سے دفاع جس انداز میں کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ملک اس امر کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے کہ نو مئی کے
مجرموں کو عدالتوں سمیت کسی بھی پلیٹ فارم سے گڈ ٹو سی یو کہا جائے۔ دوسری صورت میں سیاسی حکومت کے پاس طریقہ یہی ہو گا کہ وہ اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لائے بالکل ویسے ہی جیسے نو مئی کے فوری بعد چیف جسٹس بندیال نے وزیر اعظم اور چار وزرا کو فارغ کر کے نو مئی کا ادھورا مشن مکمل کرنے کا پروگرام بنایا تو مولانا فضل الرحمن کے لاکھوں جوشیلے کارکنوں نے ایک دن کے نوٹس پر اسلام آباد میں دھرنا دے کر دوڑیں لگوا دی تھیں، فوج کی قیادت کو احساس کرنا ہو گا کہ عدم استحکام ملک کے لیے زہر قاتل ہے، کسی ایسے عمل پر آنکھیں بند کرنا بڑے قومی حادثے کا سبب بن سکتا ہے، جس طرح معاشی محاذ پر چند سخت فیصلوں کے مثبت نتائج فوری طور پر سامنے آ گئے اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی کام کرنا ہو گا۔ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے عمران خان سے کامران خان تک نے پورا زور لگایا، ان کے مخالفین کو اس بات کی قطعی پروا نہیں تھی کہ غیر ملکی سپورٹ اور اداروں خصوصا عدلیہ کے اندر سے ملنے والی یقین دہانیوں کے باوجود اگر نو مئی کی بغاوت کامیاب ہو جاتی تو اسے دوسری سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈروں نے تسلیم نہیں کرنا تھا، اس کے سنگین اثرات اداروں پر بھی مرتب ہوتے اور دشمن کا خانہ جنگی کرانے کا ناپاک ارادہ پورا ہو جاتا، انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ ہم خیال جج اور میڈیا کا ایک مخصوص حصہ، ریٹنگ کے متلاشی اینکر اور اینکریاں طے شدہ منصوبے کے تحت نو مئی کے واقعات کو الٹا آرمی کی سازش قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں یا اسے بہت معمولی واقعہ کے طور پر پیش کرنے پر مصر ہیں، خیر یہ معاملہ تو اسٹیبلشمنٹ کو خود ہی دیکھنا ہو گا کیونکہ اس میں کون کون کیسے کیسے ملوث ہے یہ کھلا راز ہے، دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کے آنے سے قبل فیصل واوڈا اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر خبریں دینے کی شہرت رکھنے والے میڈیا عناصر کس کے کہنے پر یہ دعوی کرتے رہے کہ سابق وزیر اعظم کو واپس نہیں آنا چاہیے اور اگر آئے تو پھنس جائیں گے، ظاہر ہے یہ سب بے سبب اور اچانک نہیں تھا، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سکرپٹ رائٹر بھی موجود ہے۔ نواز شریف کو یہ پتہ تو ہے ہی کہ چاہے موٹر وے بنائیں، چاہے ایٹمی دھماکے کریں، چاہے سی پیک شروع کریں نکالنے والے نکال ہی دیتے ہیں، یقینا ن لیگ کی قیادت نے اس حوالے سے کچھ نہ کچھ تیاریاں تو کی ہوں گی۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کے مصداق اصل مسئلہ مائنڈ سیٹ ہے، ملک کے ایک بڑے اور بااثر سیاستدان نے چند ہفتے قبل کئی سینئر صحافیوں کی موجودگی میں بتایا کہ 2017 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف حملے تیز ہوئے تو انہوں نے اس وقت ایک ملاقات میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے کہا کہ ملک ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے، معاشی سمت درست ہو رہی ہے، 2013 سے اب تک حکومت سے متعلق کوئی کرپشن کا سکینڈل بھی نہیں آیا پھر یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے، سیاستدان کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جواب دیا کسی ایک بندے کو سارا کریڈٹ نہیں لے جانے دیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رقابت اور اختیارات پر قابض رہنے کی ہوس قومی اور ملکی مفاد سمیت ہر چیز پر غالب ہے، بہر حال آج کے حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی محدود آپشن ہیں، موجودہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے عدم استحکام کو ہر صورت ختم کرنا ہو گا اور عدم استحکام کی بنیادیں کہاں کہاں ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، خرابی جڑ سے ختم نہ کی گئی تو اب کی بار پیدا ہونے والا عدم استحکام خوفناک نتائج لے کر آئے گا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات