1935 کا حاکمانہ آئین … تحریر : الطاف حسن قریشی


ایکٹ 1935 کے تحت برطانوی صوبوں اور نوابی ریاستوں پر مشتمل وفاق کا وجود عمل میں آنا تھا۔ اِس پر اس وقت تک عمل درآمد ناممکن تھا جب تک نوابی ریاستوں کے حکمرانوں کی ایک معین تعداد اِلحاق کی دستاویز پر دستخط نہ کرتی۔ اِس کی نوبت ہی نہیں آئی، لہذا مرکزی حکومت کے معاملات ایکٹ 1919 کے تحت ہی چلتے رہے اور 1935 کے ایکٹ کے صرف اس حصے پر عمل درآمد شروع ہوا جس کا تعلق صوبائی حکومتوں سے تھا۔ صوبے تحویل شدہ امور کی حد تک خودمختار تھے۔ اب دوعملی ختم ہو گئی تھی اور صوبائی حکومتیں پوری ذمیداری کی حامل ہو گئی تھیں، البتہ صوبائی گورنروں کو اقلیتوں، سول سروس کے تحفظ اور امن و امان کو کسی شدید خطرے سے محفوظ رکھنے کیلئے خاص ذمے داری سونپی گئی تھی۔ مرکزی حکومت اور صوبوں کو تفویض کیے جانے والے امور اِس قدر تفصیل سے درج تھے کہ باقی ماندہ اِختیارات کا پرانا جھگڑا اپنی اہمیت کھو بیٹھا تھا۔ اِس ایکٹ کا نفاذ یکم اپریل 1937 سے ہوا۔

اِس طویل ترین تحریری دستور کے تحت درج ذیل اہم ادارے وجود میں آئے:(1) کل انڈیا فیڈریشن کا قیام (2) مرکز میں نیم ذمے دار حکومت کی تشکیل (3) صوبائی خودمختاری کا بندوبست (4) گورنر جنرل اور گورنروں کے خصوصی اختیارات (5) فیڈرل کورٹ، فیڈرل ریلوے اتھارٹی، ریزیرو بینک آف انڈیا اور اِنڈین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قیام۔آئین کی رو سے دفاع، امورِ خارجہ، مذہبی اور قبائلی امور مرکز کے سپرد کیے گئے جن کا انتظام گورنر جنرل اپنے مقرر کردہ سیکرٹریوں کی مدد سے چلانے کا مجاز تھا۔ باقی تمام وفاقی امور وزرا کو منتقل ہو گئے جو اپنی کارکردگی کیلئے اسمبلی کے سامنے جواب دہ تھے۔ قانون کے تحت مرکزی اسمبلی قائم ہوئی جس کے ارکان پانچ سال کیلئے منتخب کیے گئے۔ اسمبلی کے کل ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 357 مقرر ہوئی۔ اسمبلی کا اجلاس ایک سال میں ایک بار بلانا لازمی تھا۔ گورنر جنرل کو اِس کی معیاد بڑھانے کا اختیار حاصل تھا۔ مرکزی اسمبلی مکمل طور پر خودمختار نہیں تھی اور چند امور پر قانون سازی کیلئے وائسرائے کی پیشگی اجازت لازمی تھی۔ اِس کے علاوہ گورنر جنرل کو اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کو ویٹو کرنے کا بھی اختیار حاصل تھا۔ کچھ امور ایسے بھی تھے جن پر مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں سرے سے قانون سازی نہیں کر سکتی تھیں اور مرکزی اسمبلی کو 1935 کے ایکٹ میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی نہیں تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ بجٹ کے 80فی صد ایسے مطالباتِ زر تھے جن پر رائے شماری نہیں ہو سکتی تھی۔ایوانِ بالا (کونسل آف اسٹیٹ) ایک مستقل ادارہ قائم ہوا جس کے ایک تہائی ارکان ہر تین سال بعد ریٹائر ہو جاتے۔ ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 260مقرر ہوئی۔ اس میں برطانوی علاقوں سے نمائندے منتخب ہو کر آتے جبکہ ریاستوں کے نمائندے حکمرانوں کے نامزد کردہ ہوتے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں گورنر جنرل کو لامحدود اِختیارات دستیاب تھے جو تاجِ برطانیہ کا نمائندہ اور اس کے سامراجی مفادات کا محافظ تھا۔ اسے آئین میں ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی۔

وہ وفاق کی مالی ساکھ، ہندوستان میں امنِ عامہ کے قیام، اقلیتوں کے جائز حقوق کے تحفظ، سرکاری ملازمین کے حقوق کی دیکھ بھال، برطانوی مصنوعات کے خلاف امتیازی ٹیکس کی روک تھام اور نوابی ریاستوں کے حکمرانوں کی مراعات کے تحفظ کا ذمیدار تھا۔ بعض امور میں وہ کابینہ کے مشورے کا بھی پابند نہیں تھا اور اسے وزرا کونسل کے تقرر اور سبک دوشی کے سلسلے میں خصوصی اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ وہ آئین معطل کرنے اور کسی وقت بھی آرڈیننس جاری کرنے کا مجاز تھا۔ اِسی طرح اسمبلی کا اجلاس بلانا، ملتوی کرنا، اسمبلی کو تحلیل کر دینا، صوبائی امور میں مداخلت کرتے رہنا، اسمبلیوں میں کسی بِل پر بحث روک دینا اور اسمبلی کے منظورشدہ بِل دوبارہ غوروخوض کیلئے واپس بھیج دینا، اس کے دائرہ اختیار میں شامل تھا۔ اِس کے علاوہ گورنر جنرل دفاعی، مذہبی اور قبائلی امور کا بھی انچارج تھا اور اِن امور کی انجام دہی کے لیے کونسلر خود مقرر کر سکتا تھا۔ مزیدبرآں مرکزی اسمبلی کے صدر کے تقرر اور برطرفی کا اختیار بھی رکھتا تھا اور مالی امور میں بھی اسے غیرمعمولی اختیارات دیے گئے تھے۔ کوئی بھی ٹیکس اس کی منظوری کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ایکٹ 1935 کے تحت صوبائی گورنروں کو بھی لامحدود اِختیارات تفویض کیے گئے تھے جن میں بطورِ خاص صوبوں میں امنِ عامہ کا قیام، سرکاری ملازمین اور ان کے حقوق کا تحفظ اور اقلیتوں کے حقوق کی نگہداشت شامل تھے۔ اِس تحریری دستور میں فیڈرل کورٹ قائم کی گئی جو ایک چیف جسٹس اور چھ جج صاحبان پر مبنی تھی۔ جج 65 سال کی عمر تک کام کر سکتا تھا۔ وہ شخص جو ہائی کورٹ میں دس سال تک پریکٹس کر چکا ہو یا ہائی کورٹ میں پانچ سال تک جج رہ چکا ہو، اسے فیڈرل کورٹ کا جج مقرر کیا جا سکتا تھا۔ فیڈرل کورٹ کو براہِ راست مقدمات اور مقدمات کی اپیلیں سننے کے اختیارات حاصل تھے۔ اسے آئین کی تشریح اور صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی دیکھ بھال کا کام بھی سونپا گیا تھا۔ وہ گورنر جنرل کو آئینی مشورہ دینے کا بھی مجاز تھا، البتہ مشورے کو قبول یا مسترد کرنا گورنر جنرل کی صوابدید پر موقوف تھا۔ایکٹ 1935 کے تحت سیکرٹری آف اسٹیٹ کی کونسل توڑ دی گئی جو 1858 کے ایکٹ کے تحت قائم ہوئی تھی جس کے ذریعے ہندوستان پر حکومت کی جاتی تھی۔ اس کے خاتمے سے ایک استبدادی نظام کی بساط لپٹ جانے کا کسی قدر اِحساس پیدا ہوا، مگر اِس ایکٹ کے نفاذ سے ہندوستان کے کسی ایک طبقے کی بھی سیاسی امنگیں پوری نہیں ہوئیں، کیونکہ اِس میں ہندوستانیوں کو مکمل اختیارات منتقل نہیں کیے گئے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے وفاقی اسکیم مسترد کر دی تھی جس کا اصل مقصد ہندوستانیوں کو ایک مکمل ذمیدار حکومت سے محروم رکھنا تھا۔ قائدِاعظم نے ایکٹ 1935 کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس کی اسکیم بالکل ناکارہ اور بنیادی طور پر غلط ہے۔ کانگریس نے بھی عدم اطمینان ظاہر کیا، تاہم دونوں جماعتوں نے حالات کے مطابق جو کچھ مل گیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے اور آگے بڑھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ