میاں صاحب اور ’اتفاقیہ سیاست‘ تحریر: مظہر عباس


ہماری پوری سیاست ’اتفاقیہ‘، ’حادثات‘ اور ’ردعمل‘ سے بھری پڑی ہے ایک کو گرانے کیلئے دوسرے کو لایا جاتا ہے اور پھر یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک معاملات لانے والوں کے کنٹرول میں رہتے ہیں۔ اس ’نظریہ سیاست‘ میں تیزی 70کی دہائی کے بعد آئی نواز شریف اور عمران خان، اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ کل کے غدار آج کے محب وطن اور کل کے محب وطن آج غدار ٹھہرائے جارہے ہیں۔ بظاہر یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا اور اسی لئے آنے والا وقت نہ سیاست اور نہ ہی جمہوریت کیلئے کوئی بڑی ’خوشخبری‘ لارہا ہے۔

پاکستان کی سیاست ’سانپ سیڑھی‘ کی مانند ہے کب کوئی کہاں پہنچ جائے پتا ہی نہیں چلتا۔ 1977 کے مارشل لا کے بعد محض ایک مقبول رہنما کو راستے سے ہٹانے کی خاطر اس ملک کی سیاست، صحافت اور عدلیہ کو ہی نہیں پورے معاشرےکو تباہ و برباد کردیا گیا کیونکہ ایک فوجی آمر ایک منتخب وزیراعظم کو ہر صورت ’پھانسی‘ دینا چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہوا۔ اس کی مقبولیت پھر بھی کم نہ ہوئی تو اسکی جماعت کو ختم کرنے کیلئےہر طرح کے حربے استعمال ہوئے جعلی ریفرنڈم، غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات اور اس طرز سیاست نے جنم لیا ۔ ایک ’اتفاقیہ‘ سیاستدان کو، جن کے پورے خاندان کو نہ سیاست میں آنے کا شوق تھا نہ لگن مگر چونکہ اس ملک کے آمر کو ضرورت تھی پنجاب کی اشرافیہ میں سے کسی کی، تو جب سندھ کا محمد خان جونیجو بھی آزاد خیال اور جمہوری مزاج کا نکلا تو سیاست کی یہ ’لاٹری‘ میاں صاحب کے حصہ میں آئی۔

ان 40برسوں میں ہماری سیاست میں کئی ایسے مراحل آئے جب اسی ’اتفاق‘ سے جنم لینے والے میاں محمد نوازشریف نے ’ڈکٹیشن نہ لینے کا فیصلہ‘ کیا تو انکے متبادل کی تلاش شروع ہوگئی۔ اس وقت تک بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی ناقابل قبول ہوگئی تھی اس لئے ایک سازش کے تحت جس کا حصہ میاں صاحب خود بھی تھے اسے 1990میں ہٹاکر، ایک جعلی الیکشن میں ہراکر میاں صاحب کو وزیراعظم بنادیا گیا (یقین نہ آئے تو اصغر خان کیس پڑھ لیں)۔ 1993میں کراچی میں ایک غیر سیاسی ریلی 14؍اگست کو نکالی گئی جس میں مولانا ایدھی کو زبردستی لایا گیا اس میں کئی سماجی رہنما ،ہاکی اور کرکٹ کے کھلاڑیوں سمیت عمران خان بھی شامل تھے۔ پھر جنرل حمیدگل نے، عمران خان اور ایدھی کو ملاکر جماعت بنانے کی کوشش کی۔ ایدھی صاحب لندن چلے گئے اور بیان دیا میری جان کو خطرہ ہے وصیت بھی لکھوادی۔ ایک بار عمران سے میں نے پوچھا تو اس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’میں شروع میں حمیدگل صاحب کے خیالات سے متاثر تھا، قریب گیا پھر اندازہ ہوا معاملہ کچھ اور ہے تو الگ ہوگیا‘‘۔ موصوف گل صاحب نے میاں صاحب کی بھی سیاسی تربیت کی پھر 1988 میں IJI بنائی تاکہ بی بی کی دو تہائی اکثریت کو روکا جائے۔

لہٰذا ہماری سیاست میں ایک پروجیکٹ لایا جاتا اس سے ’دل‘ بھر جاتا ہے تو دوسرا لے آتے ہیں جب تک یہ پروجیکٹ بنانے کی انڈسٹری بند نہیں ہوتی اس ملک کی درست سمت کا تعین نہیں ہوپائے گا۔ رہ گئی بات صحافت کی وہ پہلے بھی بہت معیاری نہ تھی مگر کچھ ضابطے ضرور تھے اب تو ’صحافی اور صحافت‘ دونوں ہی ’برائے فروخت‘ ہیں۔میاں صاحب 3بار وزیراعظم بنے مگر ہر بار ان کی اننگ نامکمل رہی۔ سب سے اچھا موقع ان کے پاس 1997اور 2013 میں تھا۔ جب دو تہائی اکثریت ملی 1997 میں تو وہ سنبھال نہ پائے اور غیرضروری تنازعات کا شکار ہوگئے جنرل جہانگیر کرامت کا ہٹانا یا استعفیٰ جنرل مشرف کو لانا، صدر فاروق لغاری کی جگہ رفیق تارڑ کا آنا اور پھر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے معاملات بگڑنا رہی سہی کسر انہوں نےآئین میں ترامیم لاکر کردی اور امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ 2013کے الیکشن تک عمران خان سیاسی افق پر ابھر چکے تھے جس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا میاں صاحب پر سے اعتماد اٹھنا اور مسلسل پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی خراب کارکردگی تھی ،جس میں خراب گورننس، کرپشن کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کی مسلسل مداخلت بھی رہی۔ مگر میری نظر میں سب سے بڑی وجہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تھی جس کے بعد آصف زرداری پی پی پی کو اس انداز میں نہ سنبھال پائے کیونکہ وہ عوامی سیاست میں کمزور ثابت ہوئے۔ 2008سے 2013تک پنجاب میں پی پی پی کا ووٹر پی ٹی آئی میں چلا گیا اور اب تک وہ واپس نہیں آیا۔ لہٰذا جو ’سیاسی پروجیکٹ‘ عوام کے اندر سے آتا ہے اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے بھٹو اور بے نظیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس کے بعد گویہ پی پی پی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

میاں صاحب کی تیسری اننگز کی ناکامی کی وجہ ان کا عمران کے مطالبے پر چار حلقے نہ کھول کر غیرضروری طور پر ان قوتوں کو موقع دینا تھا جو پہلے ہی ان سے ناخوش تھیں دوسری بات 2016 میں پانامہ لیک کے بعد جس میں ان کا نہیں مگر بیٹوں کا نام ضرور تھا اگر وہ اخلاقی طور پر استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کی طرف جاتے یا خود کسی دوسرے کو وزیراعظم نامزد کرتے تو وہ زیادہ طاقتور بن کر سامنے آتے۔ تیسری بڑی غلطی پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ جانا اور پھر JIT کا بائیکاٹ نہ کرنا تھا۔رہ گئی بات مینار پاکستان پر تقریر میں کہنے کی کہ 23سال آپ یا تو جیل میں رہے یا جلاوطن یا مقدمات تو 2000میں بھی آپ نے خود جلاوطنی کا آپشن لیا اور 2020 میں بھی ورنہ اگر ملک میں رہتے جیل ہو یا نظربندی تو آج آپ کو اپنے ہی ہوم گراؤنڈ لاہور میں سیاسی طور پر ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

میاں صاحب اب اپنی چوتھی اور غالباً سیاسی طور پر آخری اننگز کا آغاز کررہے ہیں اس بار وہ مقدمات اور نا اہلی کو ختم کرواکر ہی اس کا آغاز کرسکتے ہیں۔اس ملک میں تباہی کی جتنی ذمہ دار عدلیہ ہے شاید ہی کوئی دوسرا ادارہ ہو۔ میاں صاحب کے خلاف 2017کا فیصلہ غلط ہوسکتا ہے مگر تاحال یہ دو تلواریں تو موجود ہیں۔ ایک آخری درخواست یہ سارے پروجیکٹ بنانے والوں سے، خدارا خود ہی غور کریں اگر کوئی پروجیکٹ لاتے ہیں تو اسے چلنے تو دیا کریں، یہ چھوٹے بڑے پروجیکٹ ہر چند سال بعد لاکر ملک کی سیاست کو کہاں لاکھڑا کیا؟ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہی طریقہ ہے سمت کے تعین کا تو آپ تاریخی غلطی کر رہے ہیں۔ غلطی کو سدھارنے کا درست طریقہ یہی ہے کہ جمہوری نظام کو آگے بڑھنے دیں سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ اس ’سانپ سیڑھی‘ کے کھیل کو ختم کریں ورنہ نہ معیشت آگے جائیگی نہ سیاست، ایسے میں ریاست ہوگی بھی تو کیسی؟۔

بشکریہ روزنامہ جنگ