ایس ایم ظفر صاحب کی یاد میں تحریر: حامد میر


یاد نہیں ایس ایم ظفر صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی ۔اتنا ضرور یاد ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق ہمارے والد پروفیسر وارث میر کی تحریروں سے تنگ آ گئے تو مارشل لا حکومت کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی لاہور کی انتظامیہ کو ایک خط لکھا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ یونیورسٹی کا استاد سرکاری ملازم ہوتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم کی طرف سے سرکار پرتنقید نہیں کی جا سکتی لہٰذا سرکاری ملازمین اخبارات میں کالم لکھنا بند کر دیں ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس دوران والد صاحب کو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بھی خبردار کیا کہ وہ مارشل لا حکومت پر تنقید سے باز رہیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ جب والد صاحب باز نہ آئے تو انہیں ایک نوٹس جاری کیا گیا۔ ایک دن چھٹی والے دن ایس ایم ظفر صاحب ہمارے گھر آئے اور انہوں نے کئی گھنٹے لگا کر اس نوٹس کا جواب تیار کیا۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ والد صاحب اپنی آزادی اظہار کی خاطر سرکاری ملازمت کو داؤ پر لگانے کیلئے تیار ہو چکے ہیں اور ایک قانونی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں جس میں ایس ایم ظفر انکی وکالت کریں گے۔ ایس ایم ظفر صاحب نے والد صاحب کی طرف سے جو جواب بھجوایا وہ اتنا مضبوط تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کیلئے صحافت کے ایک استاد کے خلاف اپنے کالم میں آئین کی بحالی کا مطالبہ کرنے پر کارروائی کرنا مشکل ہو گیا۔پھر والد صاحب کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوا اور ایس ایم ظفر صاحب کی ہمارے گھر میں آمدورفت بڑھ گئی۔ 1987ء میں والد صاحب کے انتقال کے بعد ان سے کوئی ر ابطہ نہ رہا لیکن اس دوران مجھے انکی کئی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ روزنامہ جنگ سمیت دیگر اخبارات میں ان کے کالم بھی شائع ہوتے تھے وہ جب بھی اپنے کسی کالم میں صدارتی نظام حکومت پر تنقید کرتے تو میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ وہ تو خود صدارتی نظام کا حصہ تھے اور ایک فوجی صدر کے وزیر قانون رہے تو وہ صدارتی نظام کو پاکستان کیلئے زہر قاتل کیوں سمجھتے تھے؟ یہ سوال پوچھنے کا موقع مجھے 2006ء میں ملا جب ظفر صاحب سینیٹر بن کر اسلام آباد آنے جانے لگے۔

ایس ایم ظفر صاحب کو بطور سینیٹر میں نے بہت قریب سے دیکھا اور ان سے طویل نشستوں میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ پاکستان کی ایک چلتی پھرتی سیاسی تاریخ تھے اور بہت سے اہم سیاسی راز ان کے سینے میں دفن تھے۔ میں انہیں اکثر اپنی سیاسی یادداشتیں لکھنے کی گزارش کرتا کیونکہ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ اپنی ڈائری لکھتے ہیں اور انکی ڈائری میں بہت کچھ محفوظ ہے۔ 2013ء میں’’ سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی اپنی زبانی ‘‘منظر عام پر آگئی۔ اس کتاب میں زیادہ تر واقعات کا تعلق جنرل پرویز مشرف کے دور اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور سے تھا۔ یہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی کھلم کھلا مداخلت کے عروج کا زمانہ تھا اور ایس ایم ظفر صاحب مسلم لیگ ق میں بیٹھ کر جنرل مشرف کو وردی میں دوبارہ صدر بنانے کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ مشرف کو دوبارہ باوردی صدر بنانے کی سب سےزیادہ حمایت شیخ رشید احمد نے کی جس کا ذکر ایس ایم ظفر صاحب نے اس کتاب میں کر دیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی میں ان سے تقاضا کیا کرتا کہ بہت سے واقعات انکی ڈائری میں محفوظ ہیں انہیں بھی سامنے لایا جائے۔ ظفر صاحب دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سرہلا دیتے ۔اس دوران ان کے برخوردار سید طارق ظفر کا انتقال ہو گیا۔ بیٹے کی وفات کے بعد وہ زیادہ بیمار رہنے لگے لیکن اس کے باوجود انہوں نے انگریزی میں ایک کتاب لکھ ڈالی۔ History of Pakistan Reinterpreted کے نام سے اس کتاب میں انہوں نے اہم راز افشا کر ڈالے۔ اس کتاب میں انہوں نے اٹک سازش کیس کی تفصیل بیان کی جس میں وہ کیپٹن راجہ نادر پرویز اور کیپٹن فاروق جنجوعہ کے وکیل تھے۔ یہ دونوں فوجی افسران ستارہ جرات تھے لیکن ان سمیت فوج کے 59افسران پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے مارچ 1973ء میں ایک سازش تیار کی جس کے تحت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر اور آرمی چیف جنرل ٹکا خان کو یوم پاکستان کی پریڈ سے اغوا کر کے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ ان افسران کے کورٹ مارشل کیلئے ایک فوجی عدالت بنائی گئی جس کے سربراہ بریگیڈیئر ضیاء الحق تھے۔ ایس ایم ظفر صاحب نے اس فوجی عدالت میں یہ دلیل پیش کی کہ پاکستانی فوج کے نوجوان افسران اقتدار کے بھوکے نہیں تھے بلکہ وہ ڈھاکہ میں کئے جانے والے سرنڈر پر دل گرفتہ تھے اور سرنڈر کرنے والوں کا احتساب چاہتے تھے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران فوجی عدالت کے سربراہ بریگیڈیئر ضیاء الحق اور ایس ایم ظفر کے درمیان ایسا تعلق پیدا ہوا کہ کئی دفعہ ضیاء صاحب نے ملزمان کے وکیل ایس ایم ظفر کے ساتھ راولپنڈی سے اٹک قلعے تک اکٹھے سفر کیا جہاں مقدمے کی سماعت ہوتی تھی۔ ایک دفعہ ایسے ہی ایک سفر میں بریگیڈیئر ضیاء نے ایس ایم ظفر کو بتایا کہ میں نے آپ کی کتاب ’’ڈکٹیٹر کون؟‘‘ پڑھ رکھی ہے۔ یہ کتاب ڈکٹیٹر شپ کے خلاف تھی لیکن بریگیڈیئر ضیاء نے کتاب کے مصنف سے کہا کہ جب کینسر کا علاج دوائی سے نہ ہو سکے تو پھر ایک بڑا آپریشن کرنا پڑتا ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب کو 1973ء میں اندازہ ہو چکا تھا کہ اٹک سازش کیس میں ملوث نوجوان فوجی افسران تو مارشل لا نہیں لگا سکے لیکن ان افسران کا ٹرائل کرنے والی عدالت کے سربراہ بریگیڈیئر ضیاء الحق کے دماغ میں مارشل لاکا منصوبہ ضرور موجود تھا۔ 1977ء میں یہ بریگیڈیئر صاحب آرمی چیف بن چکے تھے اور انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایس ایم ظفر صاحب کو اپنی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی پارٹی کے سربراہ پیر پگارو کی اجازت کے بغیر وزیر نہیں بن سکتا۔ جب پگارو صاحب نے انہیں وزیربننے کی اجازت دے دی تو ظفر صاحب نے 5جنوری 1978ء کو ایک اخباری بیان کے ذریعہ جنرل ضیاء کی کابینہ میں شمولیت سے معذرت کر لی۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر کی کابینہ میں شمولیت کو انہوں نے ہمیشہ اپنی غلطی سمجھا اور دوبارہ اس غلطی کو دہرانے سے گریز کیا۔ ایک ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی بنائی گئی جماعت مسلم لیگ (ق) میں وہ شامل بھی رہے لیکن اسی ڈکٹیٹر کی وردی اتروانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ انکی آخری کتاب ’’پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ‘‘ اسی سال شائع ہوئی جس میں انہوں نے پاکستان کے مسائل کا حل آئین کی بالادستی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک پارلیمنٹ آزاد نہیں ہوگی اس ملک کی عدلیہ اور میڈیا آزاد نہیں ہو سکتا۔ 19اکتوبر 2023ءکو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنی کتابوں کی صورت میں ایک عظیم علمی ورثہ پیچھے چھوڑ گئے ہیں جس میں آج کے پاکستان کو درپیش تمام سیاسی و آئینی مسائل کا حل موجود ہے اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ایس ایم ظفر کی فکر سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)

بشکریہ روزنامہ جنگ