پاکستانی سیاست کے بدلتے رنگ : تحریر علامہ ابتسام الہی ظہر


پاکستانی سیاست کئی عشروں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔ اس دوران بہت سی جماعتیں منظرِ عام پر آئیں اور ان کو عروج کے ساتھ ساتھ زوال اور کئی ایک کو زوال کے بعد دوبارہ عروج بھی حاصل ہوا۔ یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک نمایاں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی رہی ہے۔ اس جماعت کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنے ترقی پسندانہ نظریات کے حوالے سے معاشرے میں مقبول ہوئے۔ وہ سوشل اِزم پر یقین رکھتے تھے اور روسی و چینی طرزِ سیاست سے بہت متاثر تھے۔ ان کے نزدیک مزدوروں اور کسانوں کو ملکی معاملات اور امور میں شریک کرنا نہایت ضروری تھا۔ وہ اپنے اس دعوے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے بلکہ ان کی اپنی جماعت میں بہت سے بااثر جاگیردار نمایاں عہدوں پر فائز تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سیاست میں مذہب کے عمل دخل کے قائل نہ تھے اور مذہبی قدامت پسندی کے بھی ناقد تھے جس کی وجہ سے ان کو مذہبی طبقات کی شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سیاست کی ابتدا ہی میں ایک بڑا سانحہ یہ رونما ہوا کہ پاکستان عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کے باوجود اقتدار حاصل نہ کر سکی۔ بنگالی قوم پرستوں نے اس حوالے سے بھرپور احتجاجی تحریک چلائی جو بالآخر ٹکراؤ پر منتج ہوئی۔ بنگالی قوم پرستوں کی پشت پناہی بھارت نے بھی بڑے شدومد سے کی۔ اس بحران پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت قابو نہ پا سکی اور بدقسمتی سے ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی ملک میں پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ عوامی تائید حاصل رہی اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم مذہبی طبقات کی مخالفت کے باوجود عوام کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتے رہے لیکن سیاسی ماحول میں مختلف نظریات کی کشمکش کی وجہ سے ایک تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 1977 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا جس پر ایک ملک گیر تحریک چلی اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نہ صرف یہ کہ اس تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو گئے بلکہ ان کو بعد ازاں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی سفر اس کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر دیگر جماعتوں کی ہمراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی متحرک رہی۔ ضیا الحق مرحوم کے اقتدار کے آخری دور میں پیپلز پارٹی نے ملک کے طول و عرض میں ایک بڑی رابطہ عوام مہم لانچ کی۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی بیٹی بینظیر بھٹو کو بہت زیادہ عوامی پذیرائی اور تائید حاصل ہوئی۔ اسی اثنا میں ضیا الحق مرحوم ایک فضائی حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے جس کے بعد1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی لیکن پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کو مینڈیٹ حاصل ہوا اور پاکستان مسلم لیگ ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری جو بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی شکل اختیار کر گئی۔ اسی دوران میاں محمد نواز شریف ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے اور آئی جے آئی کی جانب سے پنجاب کے وزیراعلی بنے۔ کرپشن کے الزامات پر پیپلز پارٹی حکومت رخصت ہوئی تو 1990 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ 1993 میں ہونے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری رہا جبکہ 1997 کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کو ملک گیر مینڈیٹ حاصل ہوا۔ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک ملک میں دو جماعتی نظام جاری رہا۔ پاکستان کی دیگر مذہبی اور علاقائی جماعتیں محدود مینڈیٹ کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اسی اثنا میں میاں محمد نواز شریف اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات ہوئے جس کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا لگا دیا اور نہ صرف یہ کہ میاں نواز شریف کو اقتدارسے محروم ہونا پڑا بلکہ قید و بند اور جلاوطنی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ایک لمبے عرصے تک وہ سیاست سے لاتعلق رہے۔
2002 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ اپنی سیاسی حیثیت کو برقرارنہ رکھ سکی اور پاکستان میں دینی جماعتوں کے اتحاد ”متحدہ مجلس عمل نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری جبکہ ملک کا اقتدار پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 2008 میں ہونے والے انتخابات سے قبل الیکشن کمپین کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ الیکشن ہوئے تو انتخابی نتائج ایک مرتبہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں برآمد ہوئے جبکہ پنجاب میں صوبائی اقتدار مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہوا۔ 2008 کے انتخابات کے بعد دو پارٹیوں کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی ایک نمایاں سیاسی پارٹی کی حیثیت سے منظر عام پر ابھرنا شروع ہوئی اور 2013 کے انتخابات میں گو پاکستان مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت کر برسرِاقتدار آ گئی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی سندھ اور کے پی میں صوبائی حکومتیں قائم کیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انتخابی نتائج کوتسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کئی ماہ تک مسلسل دھرنا دے کر احتجاجی تحریک کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہو گئی جبکہ پیپلز پارٹی دوسری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت اختیار کر گئی۔
2018 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک میں ایک واضح سیاسی تبدیلی نظر آئی۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے ملک میں اقتصادی، معاشی اور تہذیبی انقلاب کی بات کی لیکن عملا وہ اس حوالے سے خاص پیش رفت نہ کر سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار کو ابھی ساڑھے تین سال ہوئے تھے کہ ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاسی کشمکش کا آغاز ہو گیا جس کے نتیجے میں عمران خان اپنے اقتدار سے محروم کر دیے گئے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی اتحادی جماعتوں کے ہمراہ برسر اقتدار آ گئی۔ عمران خان نے اقتدار سے معزول ہونے کے بعد احتجاجی تحریک کا دوبارہ آغاز کیا اور ملک کے طول و عرض میں اجتماعات اور ریلیوں کا انعقاد کیا جن میں شدت اور اشتعال کی ایک لہر بھی نظر آئی۔ اسی دوران 9 مئی 2023 کو ایک بڑا سانحہ رونما ہوا اور ملک کے عسکری اداروں اور تنصیبات پر دھاو ا بول دیا گیا۔ نتیجتا پاکستان تحریک انصاف کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان ہوا اور اس اشتعال انگیزی کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو جیل کا سامناکرنا پڑا اور وہ اپنے بہت سے ساتھیوں کی تائید اور حمایت سے بھی محروم ہو گئی جبکہ عمران خان کو بھی ایک مقدمے میں جیل جانا پڑا۔ پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف جو ایک عرصے سے بیرونِ ملک مقیم تھے ان کے ہمنواوں، ساتھیوں اور رفقا نے ان کو پاکستان واپس آنے کی دعوت دی جس کو میاں نواز شریف نے قبول کیا اور 21 اکتوبر کو پاکستان آمد کے موقع پر مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ میاں نواز شریف نے اس موقع پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ کوئی نئے نہ تھے بلکہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر معاشی طور پر مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان ایک عرصے سے سیاسی جماعتوں کی کشمکش کا شکار ہے اور افسوس کہ کئی عشروں کے بعد بھی سیاسی استحکام حاصل نہیں ہو سکا۔ بدقسمتی سے پاکستان جس عزم اور ارادے کے ساتھ قائم کیا گیا تھا، اس کو تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ”اسلامی جمہوری ریاست کا قیام تھا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون میں اسلام کے نفاذ کی یقین دہانی کرانے کے باوجود تاحال پاکستان میں صحیح طور پر اسلامی نظام قائم نہیں ہو سکا۔ پاکستان کے طول و عرض میں سودی لین دین اپنے عروج پہ نظر آتا ہے، اسی طرح قحبہ گری کے اڈے بھی کئی مقامات پرقائم ہیں اور منشیات فروشی کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ پاکستان میں کئی مرتبہ ٹرانس جینڈر جیسے بلوں کو بھی پیش کیا جاتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ حرمت رسول اور ختم نبوت سے متعلقہ شقوں کے خلاف بھی سازشیں کی جاتی رہیں جو علما کرام کی محنت سے ناکام ہو جاتی رہیں۔ پاکستان کے عوام روایتی سیاستدانوں کے وعدوں کو ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں لیکن جس معاشی اور سیاسی استحکام کے حصول کیلئے بالعموم ان جماعتوں کو ووٹ دیا جاتا ہے، اس اعتبار سے خاطر خواہ کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان کے عوام کو اس حوالے سے ازسرِ نو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ انہی روایتی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتے رہیں گے یا نظریاتی جدوجہد کرنے والی ان جماعتوں اور تحریکوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے جو ملک میں حقیقی معنوں میں اسلام اور آئین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں۔
ہماری جمہوریت اور انتخابی نظام میں سرمایہ کاری، ذات برادری اور دھڑوں کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ نظریاتی مذہبی جماعتیں بالعموم اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کو عوام سے یہ گلہ بھی ہے کہ عوان ان کا صحیح طور پر ساتھ نہیں دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں قیادت کا بحران موجود ہے اور اس بحران پر قابو پانے کے لیے نظریاتی، مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ انہیں جہاں اپنے وسائل اور افرادی قوت کو مرتکز کرنے کی ضرورت ہے وہیں خصوصیت سے عوام کی ذہن سازی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک وسیع پیمانے پر عوام کی ذہن سازی نہیں کی جائے گی اور ملک میں موجود فرقہ وارانہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نکتے پر یکسو ہونے کیلئے لائحہ عمل تیار نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ملک میں نظریاتی سیاست عروج حاصل نہیں کر سکتی۔ سیاسی جماعتوں کی اس کشمکش میں دھڑوں، برادریوں اور پارٹیوں کے حامی اپنے مشن پر پوری شد و مد سے کاربند نظر آتے ہیں لیکن غیر جانبدار محب وطن پاکستانی کو ان تمام معاملات کو دیکھ کر تشویش ہوتی ہے۔ اس تشویش سے باہر نکلنے کیلئے مذہبی سیاسی جماعتوں کو موجودہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اگر دینی نظریاتی جماعتوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا تو یقینا قیادت کے بحران کو پر کرنے میں وہ کسی حد تک کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ بصورتِ دیگر پاکستان میں جس انداز سے ماضی میں اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی وہی سلسلہ مستقبل میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا