کوئی مانے یا نہ مانے اس کے آنے کے بعد سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے، مستقبل کی سیاسی سکیم واضح ہوچکی ہے، صاف نظر آ رہا ہے کہ اسے اقتدار دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
اس کے پاکستان میں اترتے ہی نگران حکومتوں کا سحر ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ نوکر شاہی یا اقتدار پسندوں کے دوسرے گروہ، سب اس کے گرد جمع ہونا شروع ہو جائیں گے، نئی سیاسی صف بندیاں ہونگی اور نئے تانے بانے بنے جائیں گے۔
کہا گیا ہے کہ انتقام نہیں لیا جائے گا یہ خوش آئند اعلان ہے لیکن اس کی عملی شکل کیا ہوگی؟ کیا کھلاڑی اور اس کی پارٹی کو بھی کھلا میدان ملے گا یا پھر اس کو جیل میں ہی کوئی رعایت ملے گی؟
بظاہر 9مئی کے ذمہ داروں اور کھلاڑی کے نمایاں ساتھیوں کے ساتھ کوئی ڈھیل ہوتی نظر نہیں آرہی شکنجہ اور کسا جا رہا ہے، نونی لیڈر اور مقتدرہ کے لئے سب سے پہلا مسئلہ یہی ہے کہ کھلاڑی کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچیں، ظاہر ہے کہ یہ ایسا فیصلہ ہونا چاہئے جو عقلی طور پر سب کے لئے قابل قبول ہو ۔
وہ واپس آیا ہے تو سب کچھ یک دم بھول تو نہیں سکتا اس کے خلاف پاشوں، ظہیر الاسلاموں اور رضوانوں نے جو جو گل کھلائے جو جو سازشیں کیں وہ سب اسے یاد ہوں گی۔ فیض حمیدوں، باجوؤں اور راحیل شریفوں کے خفیہ اور کھلے وار اسے کچوکے تو لگاتے ہوں گے۔
کھلاڑی اور عسکری خان مل کر جو جو کرتے رہے وہ بھلانا مشکل ہو گا اسے وہ انصاف خان بھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے پانامہ کے نام پر اقامہ کے ذریعے اسے سزا دی، نااہل قرار دیا، اسکے مینڈیٹ کے باوجود اسے گھر بھیج دیا اسے وہ گالیاں، بے عزتی اور نفرت بھی نہیں بھولی ہو گی جس کا سامنا اس کو لندن میں کرنا پڑتا رہا۔
اگر تو وہ عام لیڈر رہنا چاہتا ہے تو ان سب زیادتیوں کو یاد رکھ کر اپنی پالیسیاں بنائے اور ایک ایک سے بدلہ لے تاکہ آئندہ کوئی منتخب وزیراعظموں کے ساتھ ایسا نہ کر سکے لیکن اگر وہ عظیم لیڈر بننا چاہتا ہے تو پھر نیلسن منڈیلا بننا ہوگا۔
بے نظیر بھٹو کی طرح اپنی جان کے دشمنوں کو بھی مفاہمت کی طرف لانا ہوگا، سب سے پہلے سیاست کے کرداروں میں مفاہمت ہونی چاہئے پھر ہی سیاست اور مقتدرہ کے معاملات طے ہوں گے۔
اس کے آنے کے بعد سے مقتدرہ اور اہل سیاست کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی بھی پھر سے یاد آئے گی، اسے یہ سوال ضرور پریشان کرتا ہوگا کہ اگر اسے اقتدار مل بھی گیا تو کیا اس میں اختیار بھی ہوگا؟
کیا مقتدرہ کو نئے وزیر اعظم کی بجائے کہیں نئے کاکڑ کی تلاش تو نہیں۔ اگر مقتدرہ نے معیشت، زراعت اور خارجہ پالیسی خود چلانی ہے تو پھر وہ اقتدار لیکر کیا کرے گا ؟وہ تین بار پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اس لئے اس کے لئے اختیار سے خالی وزیراعظم کا عہدہ بیکار ہوگا۔
دوسری طرف مقتدرہ زراعت، معیشت، معدنیات اور خارجہ امور کے بارے میں بہت سے معاملات پہلے سے طے کئے بیٹھی ہے، ایسے میں وزیراعظم کو اختیار کہاں ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی بحث یہ اٹھائی گئی ہے کہ وہ پارٹی کو چلائے، انتخابی مہم کو لیڈ کرے، پلان بنائے مگر خود وزیر اعظم نہ بنے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو ہی دوبارہ وزیراعظم بنائے کیونکہ وہ مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے۔
میرا اندازہ یہ ہے کہ معاملہ خاندانی طور پر پہلے سے طے ہوچکا ہے جس کے مطابق نونیوں کے وزیراعظم کے امیدوار نواز شریف ہونگے الیکشن جیتے تو وہ وزیراعظم بنیں گے تاہم وہ اپنی ٹرم مکمل نہیں کریں گے سال دو سال بعد وہ اپنے بھائی کو اپنی جگہ لے آئیں گے اور خود حکومت سے باہربیٹھ کر ان کی رہنمائی کریں گے۔
اگلی سیاست میں ان کی نمائندہ مریم ہونگی، مریم کی خواہش وزیراعلی پنجاب بننے کی ہے مگر اب تک جو معاملات نظر آ رہے ہیں اس میں انکی یہ خواہش الیکشن کے فورا بعد پوری ہوتی نظر نہیں آتی، اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملے تو اوپر اور نیچے دونوں بڑی سیٹوں پر خود کو رکھنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔
بہتر ہوگا کہ مریم کو موقع ملے تو وہ بلاول کی طرح ابھی کسی وزارت یا مشاورت کے ذریعے گورننس کا مزید تجربہ حاصل کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہاں اکاموڈیٹ ہونگے؟ لگتا ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ شہباز اور حمزہ کو جگہ دینی ہے اسی لئے مینار پاکستان کے سٹیج پر مریم کے بعد اس کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز شہباز شریف اور حمزہ رہے۔
بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو صرف اپنے بارے میں نہ سوچے بلکہ اپنے مخالفوں کے بارے میں بھی سوچے، صرف اپنے حامیوں کو خوش کرنے کی پالیسی نہ بنائے بلکہ اپنے مخالفوں کو بھی خوش کرنے کے بارے میں سوچے اکثر لیڈر تنگ نظر ہوتے ہیں وہ مخالف کو مار کر سمجھتے ہیں کہ انہیں زندگی مل جائے گی جبکہ مخالف مرجائے تو مارنے والے کی زندگی کے دن بھی گنے جانے شروع ہو جاتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ جس دن میاں نواز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے بدنام زمانہ فیصلے کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو نااہل قرار دیا تھا اسی روز سے یہ طے ہو گیا تھا کہ اب اگلی باری نواز شریف کی ہو گی اور ویسا ہی ہوا۔
حالیہ تاریخ میں جب عمران خان اپنے حریف نواز شریف کو جیل میں ڈال کر فخر سے سینہ پھلائے پھرتے تھے اسی وقت سے نظر آنا شروع ہو گیا تھا کہ نواز شریف رہا ہونگے اور جب عمران خان اقتدار سے اتریں گے تو وہ بھی جیل یاترا کرینگے ۔
حیرانی کی بات ہے کہ اہل سیاست کو یہ سادہ سی بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اسی میں گرتا ہے۔ اب وقت ہے کہ وہ بڑا لیڈر بنے دوسرے کے کھودے گڑھے مٹی سے بھرے اور ایک نئی سیاست کا آغاز کرے۔
وہ اس وقت اس خطے کا سب سے تجربہ کار سیاست دان ہے مودی ہو، طالبان ہو، حسینہ واجد ہو یا ایرانی قیادت سب اس سے تجربے میں جونیئر ہیں وہ آج سے 33سال پہلے بھی وزیر اعظم تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اب صرف وزیر اعظم نہ بنے بلکہ تاریخ بنائے۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر اسے اقتدار ملتا ہے تو وہ کھلاڑی کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے، اگر تو اس نے کھلاڑی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا، وہ جیل میں سڑتا رہا، اسے الیکشن میں برابر کے مواقع نہ دیئے تو پھر اس میں اور کھلاڑی میں کیا فرق رہ جائے گا۔
اسے بڑا بننا ہے تو کھلاڑی اور اس کے مینڈیٹ کو بھی عزت دے، اس کا ہاتھ پکڑ کر گڑھے سے نکالے اور اپنے سامنے والی نشست پر بٹھائے، جس دن تضادستان میں ہم نے سیاسی مخالفوں کو عزت دینا شروع کر دی اس دن سے ہی پاکستان کا ایک نیا جنم ہوگا۔
اسی دن سے ہی آئین، جمہوریت اور پارلیمانی روایات کا بول بالا ہوگا، اس کے آنے کے بعد بہت کچھ کا انحصار اس کے رویے پر ہوگا اگر وہ نہلے پر دہلے مارتا رہا تو پھر کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس نے تاریخ میں اپنا نام بنانا ہے تو اسے کھلاڑی کو بھی کھلانا ہوگا ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ