قومی دانش سے قوم کی تقدیر بدلیں : تحریر محمود شام


آئیے آج ہم ان خوابوں کا تذکرہ کریں جو حقیقت نہ بن سکے۔ ان صلاحیتوں کا ماتم کریں جو بن کھلے مرجھا گئیں۔75سال میں مشرقی اورمغربی پاکستان میں کتنے عالم فاضل سیاسی مذہبی رہنما محاذ آرائیوں کی گرد میں گم ہوگئے۔ اپنے سیاسی رہبر، جاگیردار، سردار کی غلامی میں مقتدروں کے خوف میں ہم نے اپنے کتنے قیمتی خیالات خود ہی دفن کردیے۔ ہر فرد اس ملت کے مقدر کا ستارہ تھا۔ قوم کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں تھی۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے سیاسی لیڈروں نے ،مقتدر اداروں نے کروڑوں آئیڈیاز کو تعمیر قوم کی بنیاد نہیں بننے دیا۔ کتنے جاگیرداروں، سرداروں، ٹھیکیداروں، میڈیا مالکان نے کونپلوں کو پودے نہیں بننے دیا۔ آج ہم جس پاتال میں گرے ہوئے ہیں۔ اب بھی اپنی اجتماعی دانش کو استعمال کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پوری قوم اس حال تک پہنچانے والوں سے زبان حال سے کہہ رہی ہے۔

تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا

اس گیت پر عمل کیلئے کروڑوں روپے سے ایک پرانا تجربہ دہرایا جارہا ہے۔

آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہونگے ملک پھر ’دور شریفاں‘ میں داخل ہوچکا ہوگا۔ چوتھی بار میاں محمد نواز شریف کیلئے ہل چلا کر زمین ہموار کی گئی ہے۔ اکتوبر میں بہت سی اجناس کی کاشت کی جاتی ہے۔یہ ہمارے کسان بھائی بہتر جانتے ہیں۔اک فصل کیلئے کیسی زمین، کیسی کھاد اور کیسا موسم چاہئے۔ ہمارے مقتدرین نے بھی اس سلسلے میں یقیناً تحقیق کی ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) تو دن رات تیاریوں میں مصروف ہے۔ 38 سال کی مختلف حکمرانیوں میں میاں صاحب اپنے جن خیالات اور منصوبوں پر عملدرآمد نہیں کرسکے 2024 کے دور شریفاں میں ان کو عملی جامہ پہناکر پاکستان کو ایون فیلڈ جیسا ماحول عطا کرنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں سکون بھی ملتا ہے اور بیماریوں سے نجات بھی۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر اکٹھے ہونے کا دن۔ ان کے اسکولوں کے حالات جاننے،ان کے ذہنوں میں مستقبل کے خیالات سے آگاہ ہونے کے لمحات۔ اگر اللہ توفیق دے تو عصر کی نماز کے بعد محلے والوں سے حال احوال جانا جائے۔ پاکستانی اکثر ڈپریشن میں جا رہے ہیں۔ ذہنی امراض کے ماہرین کے پاس مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لوگ مایوسی کو زیادہ قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ کچھ نہ کرنے۔ آرام سے گھر بیٹھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ ملک کبھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ تحریر میں ہم نے کہا تھا ’ایک حسیں صبح آزادی ہماری منتظر ہے۔ بہت تجربہ کاروں۔ سوچنے سمجھنے والوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ یہ بد حالی غربت ہی ہمارا مقدر ہے۔ارباب اختیار کی بے بسی دیکھ کر، عدالتوں میں مقدمات کی سماعتوں کی طوالت سے بھی یہ تاثر مزید قوی ہوجاتا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے گھر سے جدو جہد کا آغاز کریں۔ گھر کا حال بہتر کریں، محلے کے حالات اور ماحول مل جل کر اچھا کریں۔ توملک کا حال بالآخر بہتر ہوجائے گا۔ محلے داری، اجتماعی فکر، ذہانت باجماعت ہی اصلاح احوال کرسکتی ہے۔ ہم مل جل کر ہی ایک ایسا سسٹم قائم کرسکتے ہیں جو بتدریج ملک کو اقتصادی، سیاسی، سماجی استحکام دے گا۔

غالب تو خاک سے پوچھ رہے تھے کہ تو نے اے لئیم۔ وہ گنج ہائے گرانما یہ کیا کیے۔ ہمیں اپنے آپ سے ،اپنے بزرگوں سے اپنی تاریخ سے سوال کرنا چاہئے کہ ہم نے کتنے موقع گنوادیے۔ کتنی ذہانتیں جیتے جی مرگئیں۔ بہت سے درد مند پاکستانیوں کے پاس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے ‘آئیڈیاز‘ ۔ منصوبے تجاویز تھیں۔ لیکن انہیں مفاد پرستوں نے ظاہر ہی نہیں ہونے دیا۔ اخبارات میں بہت کچھ اداریوں میں کالموں میں ایڈیٹر کے نام خطوط میں لکھا گیا۔ نوجوانوں نے اپنے عزائم کی روشنی میں بزرگوں نے اپنے تجربات کے تناظر میں بہت سے فارمولے تجویز کیے۔ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون خیرخواہوں نے بلوچستان کی خوشحالی کیلئے بہت کچھ سوچا۔ خیبرپختونخوا نام تو بدل دیا گیا لیکن وہاں نوجوان جو راستے بتارہے تھے۔ انہیں کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ سندھ زیریں، سندھ بالائی، سندھ شہری، سندھ دیہی کے طالب علموں کے جوانوں نے بہت سے خاکے دیے۔ مگر ان میں رنگ بھرنے نہیں دیے گئے۔ صرف خون بہانے کے مواقع پیدا کیے گئے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب، سرائیکی وسیب میں کتنی ذہنی توانائی تھی۔ فکر کی تازگی تھی اسے بروئے کار نہیں لایا گیا۔ پنجاب وسطی، شمالی۔ جہاں کتنے نامور پیدا ہوئے ۔کیسی کیسی شاعری کرگئے۔ کتنے کرداروں کو امر کر گئے۔ یہ خطّہ پورے جنوبی ایشیا کو اناج فراہم کرتا تھا۔ ان دانشوروں کسانوں، پروفیسروں، اکنامسٹوں کی قیمتی تجاویز کوکسی منصوبے کا حصّہ نہیں بنایا گیا۔ ان میں سے کتنے نوجوانوں کتنے پروفیسروں نے امریکہ کی ریاستوں میں اپنے علم کو عمل میں تبدیل کیا۔ کینیڈا، برطانیہ، فرانس، بیلجیم، جنوبی افریقہ، جاپان میں پاکستانیوں نے کتنی شمعیں روشن کیں۔

غربت میں جاکے چمکا، گمنام تھا وطن میں

میں نے پاکستان کی قومی زبانوں پنجابی،سرائیکی، سندھی، پشتو،ہندکو، بلوچی، براہوی ادب کی مثالیں دے کر کئی ہفتے لکھا کہ ان کے ناول افسانے شاعری آفاقی اور عالمی معیار کی فکر رکھتے ہیں۔ آپ ان کو موقع تو دیں۔ یہ قومی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ساحلوں، شہروں، دیہات میں موتی تلاش کریں۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو یاد آتے ہیں کہ شام کو 70کلفٹن کے دروازے کھلے ہوتے تھے۔ کوئی بھی پہلے سے ملاقات طے کیے بغیر اس محفل میں بیٹھ سکتا تھا۔ چائےبسکٹ سینڈوچ وغیرہ حاضر ہوتے تھے۔ سب کو بولنے کا موقع ملتا تھا۔ بھٹو صاحب جس کی گفتگو میں کچھ مغز محسوس کرتے۔ اسے اگلے دن صبح کا وقت دے دیتے۔ اس وقت کے دوسرے سیاسی لیڈر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، شیخ مجیب الرحمن، مولانا عبدالحمید بھاشانی، ممتاز دولتانہ،جی ایم سید، عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی کے ہاں بھی یہ معمول دیکھا۔ بہت سے جواہر اس طرح تلاش کیے گئے۔ لیکن ایسے موتی چن چن کر لاپتہ کردیے گئے۔

اب بھی ملک کے حالات اجتماعی سوچ سے ہی بدلے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی بڑے ادارے کو ایک آئیڈیاز بینک قائم کرنا چاہئے۔ جہاں ملک بھر سے خیالات جمع کیے جائیں۔ پھر سہ ماہی یا ششماہی رپورٹیں جاری کرکے عوام تک یہ منصوبے اور تجاویز پہنچائے جائیں۔ بہت سے درد مند اپنی صلاحیتیں، اپنی دانش کو بروئے کار لائے بغیر نذر خاک ہوگئے۔ ان کے ورثا سے رابطے کیے جائیں۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اہم حساس جغرافیائی حیثیت دی ہے۔ 60فی صد نوجوان آبادی، اس لیے یہ بدحالی اس قوم کا نصیب قطعاً نہیں ہے۔ اجتماعی دانش پاکستان کی عظمت رفتہ بحال کرسکتی ہے۔ یہ آئیڈیاز بینک اپنے طور پر سوشل میڈیا میں بھی موتی تلاش کرسکتا ہے، آئیے یہ عہد کریں کہ جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں۔ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی شروع کردیں، تجربے کرنے والے اپنے تجربے کرتے رہیں۔ عوام اپنے تجربے کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ