مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کے بعد کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے ایک دفعہ پھر مفاہمت کی خبریں گرم ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کی تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود سے ملاقات کی خبر نے بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کو دوبارہ مفاہمت بات کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس ملاقات کو نگران حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پہلا با ضابطہ رابطہ بھی کہا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر سے بھی ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وہ صدر عارف علوی کو کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سب کے ساتھ مفاہمت کے لیے راستے کھولے جائیں۔
جہاں تک مولانا فضل الرحمن کی بات ہے انھوں نے یہ بات پہلی دفعہ نہیں کی ہے۔ چند دن پہلے بھی انھوں نے ایسی ہی ایک بات کی تھی کہ اگر ایک کا مد مقابل بند ہو تو مقابلہ کیسا۔ جس کے بعد بھی سب حیران ہوئے تھے کہ مولانا کیا کہہ رہے ہیں۔
کیا وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو انتخابات سے قبل جیل سے رہا کرنے کی بات کر رہے ہیں؟کیا وہ اسٹبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی اگر جیل میں ہوں گے تو شفاف انتخابات ممکن نہیں ہیں۔ ویسے بھی مولانا آج کل سب سے الگ ہی چل رہے ہیں۔
انتخابات کے حوالے سے بھی مولانا کی الگ ہی لائن ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ جنوری میں انتخابات نہ کروائے جائیں کہ کیونکہ جنوری میں شمالی علاقہ جات میں برفباری ہو گی اس لیے وہاں پولنگ اور انتخابی مہم ممکن ہی نہیں۔ ان کے اس موقف کو بھی باقی جماعتوں نے کوئی خاص پذیرائی نہیں دی ۔ حتی کے تحریک انصاف نے بھی اس کی کوئی خاص حمایت نہیں کی تھی۔ لیکن مولانا نے انتخابات مزید ملتوی کرنے کی بات کی تھی۔
اس سے پہلے مولانا نے یہ بھی موقف لیاکہ ملک کے دوصوبوں کے پی اور بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ وہاں دہشت گردی کی وجہ سے انتخابی مہم ممکن نہیں۔ ٹی ٹی پی نے انتخابی مہم اور انتخابی ریلیوں کونشانہ بنانے کا اعلان کر دیا ہیمیرے اور میرے ساتھیوں کے لیے اس صورتحال میں کوئی بھی انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں۔
انھوں نے موقف لیا ہے کہ اگر دوصوبوں میں انتخابی مہم ہی ممکن نہیں تو کیسے انتخابات۔ لیکن ان کی اس بات کو بھی ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے کوئی خاص حمایت نہیں ملی تھی۔لیکن وہ اپنی اس بات پر بھی قائم ہیں۔ میں نے یہ دونوں باتیں اس لیے لکھی ہیں کہ ان کی نئی بات سمجھنے میں قارئین کو آسانی ہو جائے۔
مفاہمت کی بات تو محمد علی درانی بھی کر رہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی سے اسد قیصر، علی محمد خان، بیرسٹر سیف سمیت سب کر رہے ہیں۔شفقت محمود بھی مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ صدر عارف علوی بھی مفاہمتی موڈ میں ہیں۔ اس لیے میرے لیے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ جو لوگ ابھی کھڑے ہیں ان کے دو حصے ہیں۔
ایک وہ لوگ ہیں جو نو مئی کے واقعات میں ملوث ہیں اور فرار ہیں یا قید ہیں ان کے لیے مزید سیاست کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ لیکن باقی وہ لوگ ہیں جو نو مئی کے واقعات میں ملوث نہیں ہیں، وہ قید نہیں ہیں۔ ان پر کوئی خاص کیس بھی نہیں ہے۔ وہ سیاست کر سکتے ہیں۔ وہ سیاست کرنے کے لیے مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ گروپ صدر عارف علوی کو مفاہمت کے لیے کہہ بھی رہا ہے۔
اب سوال ہے کس سے مفاہمت ؟ کیا تحریک انصاف کا یہ گروپ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے مفاہمت کی کوشش کر رہا ہے؟ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایسا تاثر ضرور دے رہے ہیں لیکن ایسی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔ وہ اب بھی اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ صدر عارف علوی سے بھی اسٹبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔
وہ عارف علوی کو باقی سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کے لیے نہیں کہہ رہے ہیں۔ اگر میں اس بات کو زیادہ سادہ زبان میں سمجھ سکوں تو یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو نو مئی کے واقعات میں ملوث نہیں ہیں ہمیں سیاست کرنے کی اجازت دی جائے۔ جو ملوث ہیں، ہم ان کے وکیل نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ مفاہمت مائنس چیئرمین پی ٹی آئی ہے۔
کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو تو نو مئی کے مقدمات کی تفتیش میں اداروں نے گناہ گار قرار دے دیا ہے۔ جو انٹرویوز سامنے آئے ہیں۔
ان میں بھی یہی مقدمے سامنے لایا گیا ہے کہ نومئی چیئرمین پی ٹی آئی کی مکمل پلاننگ سے ہوا ہے۔ وہ اس کے لیے کافی عرصے سے تیاری کر رہے تھے۔ اس لیے نو مئی کی تمام تر ذمے داری چیئرمین پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے۔ بلکہ اب تو بشری بی بی کے حوالے سے بھی باتیں سامنے آئی ہیں کہ وہ بھی نو مئی کے واقعات کی حامی تھیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس