دنیا کے بہت سے ممالک میں عوام روایتی سیاست دانوں سے تنگ آچکے ہیں لیکن خراب سیاست دانوں کی جگہ اچھے سیاست دانوں کو موقع دینے کی بجائے کئی ایک ممالک میں رائے دہندگان نے سیاست دانوں کے متبادل کے طور پر مشہور شخصیات کو چنا ہے۔ یہ انتخاب ایک غلطی ثابت ہوا ہے ۔ شہرت یافتہ افراد ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں میڈیا کی توجہ ملتی ہے، وہ خوش حال ہوتے ہیں، کھیل کود کی دنیا میں نام کما چکے ہوتے ہیں یا پھر ان کا تعلق تفریحی صنعت سے بھی ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور ایک دولت مند کاروباری اور ٹیلی ویژن پر شعلہ بار شخصیت ہونے کا فائدہ اٹھا کر 2016 میں امریکی صدر کا انتخاب لڑنےکیلئے رپبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرلی ۔ وہ صدر بن گئے ، لیکن پھر اپنے پیچھے دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کو قطبیت کا شکار کرگئے ۔ اٹلی کے مزاحیہ اداکار، بپ گریلو (Beppe Grillo) نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور 2010-2018 تک سیاست کے مرکزی اسٹیج پر چھائے رہے لیکن فائیوسٹار موومنٹ کے لیڈر کے طور پر وہ اٹلی کے سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کیلئے کچھ نہ کرسکے ۔
پاکستان ابھی تک کرکٹ کے نامور کھلاڑی کے وزیراعظم بننے کے نتائج بھگت رہا ہے ۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ روایتی سیاست دانوں کی جگہ شہرت یافتہ افراد کو چننے سے کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ سیاست دانوں کی پہچان اُن کے نظریات یا تصورات ہوتے ہیں ۔ لیکن شہرت یافتہ افراد جب سیاست دان بنتے ہیں تو اُنھیں صرف ایک نکتہ ہی اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ نظام کس قدربوسیدہ ہوچکا ہے اور وہ کس طرح اپنے کرشماتی اثر سے اسے ٹھیک کردیں گے ۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کے حامی اور ساتھی ہوتے ہیں ، جب کہ مشہور شخصیات کے مداح ہوتے ہیں۔ حامی ایشو کی بنیاد پر اپنی حمایت تبدیل کرسکتے ہیں لیکن مداح سخت جان عقیدت مند ہوتے ہیں ۔ اُنکی جوشیلی وابستگی کو کسی استدلال اور معقولیت کی حاجت نہیں ہوتی۔
کئی برسوں سے ٹرمپ نے جائیداد کی خریدو فروخت کی ، سیاہ ٹائی لگائے مخصوص مغربی لباس (tuxedo) میں عطیات اکٹھا کرنے کی تقریبات میں دکھائی دیتے رہے، ٹی وی شو، ’’اپرینٹس‘‘ کی میزبانی کرنے سے پہلے اپنی نجی زندگی سے شہرت حاصل کی۔ اس شو میں ٹرمپ نے اپنی کمپنیوں میں کام کرنے والے سولہ افراد میں سے ایک کی خدمات حاصل کیں۔ باقی کو اس نے غلطیوں اور ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ایک ایک کرکے نکال دیا۔ اس سے تاثر ابھرا کہ ٹرمپ ایک کامیاب بزنس مین اور قوت فیصلہ رکھنے والا انسان ہے، اگرچہ اُس کےکئی کاروباروں نے بینکوں سے قرض لی گئی رقم کھو دی ۔ جب ٹرمپ نے امریکی صدارت کیلئے امیدوار ہونے کا اعلان کیا تو اسے میڈیا کی بہت زیادہ توجہ حاصل ہوئی۔ اس کے جلسے تفریحی نوعیت کے تھے جن میں ان کے حریفوں کی ناکامیوں اور کرپٹ سیاسی نظام کی شکایات کا چرچاکیا جاتا۔ روایتی سیاست کی بدعنوانی سے مایوس لوگ ٹرمپ کی ریلیوں میں جمع ہوئے اور انھیں ان کے تفریحی ٹیلی ویژن شو کے نئے ورژن کے طور پر دیکھا۔ لوگوں نے بالآخر ٹرمپ کو یہ توقع رکھتے ہوئے ووٹ دیا کہ وہ ملک کو اتنا ہی خوشحال بنائیں گے جیسا کہ اس نے خود کو بنایا تھا اور ان نااہل اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گا جن سے وہ برسوں سے ناراض تھے۔
ٹیلی ویژن کے ذریعے پیدا ہونے والے تاثر نے اس حقیقت کو چھپانے میں مدد کی کہ ٹرمپ کو حکمرانی یا مقننہ میں بیٹھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ یہ ان پاکستانیوں کے مشابہ تھا جو سوچتے تھے کہ ان کا کرکٹ ہیرو کرپشن کا قلع قمع کرے گا، معاشیات کے میدان میں چھکا مارے گا اور حکومت کو فلاحی ادارے میں بدل دے گا، جس طرح اس نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی والدہ کے نام پر ہسپتال بنایا تھا۔
ہمارے کرکٹ ہیرو نے ٹی وی کی مکمل کوریج کے ساتھ کئی دن تک کنٹینر پر کھڑے ہوکر اپنے مداحوں کو محظوظ کیا۔ اپنے مخالفین کا مذاق اڑایا، کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی اور دیومالائی وعدے کئے۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے 48گھنٹوں کے اندر انھیں پتہ چل گیاکہ نواز شریف کے وزیراعظم کے طور پر سرکاری رہائش گاہ پر سرکاری خزانے سے شاہانہ اخراجات کا ان کا اندازہ غلط تھا۔ نواز شریف نے اپنے اور اپنے خاندان کے ذاتی اخراجات کی ادائیگی کیلئے پوری ذمہ داری کے ساتھ چیک لکھے تھے۔ اس کے فوراً بعد انھیں وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے وعدوں سے پھرنا پڑا۔ اگرچہ عوام نے سرکاری تقریبات کیلئے کیٹرنگ پر اخراجات میں کمی جیسے وعدوں کیلئے ان کی تعریف کی لیکن یہ جلد ہی عیاں ہو گیا کہ کھانے پینے کے اخراجات تو پاکستان کے بھاری خسارے کے سمندر کے سامنے ایک قطرے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ نیز رہائشی عمارت کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے پر بہت زیادہ اخراجات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ غیر ملکی بینکوں سے’’کرپٹ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر‘‘ واپس لا کر پاکستان کو اجتماعی طور پر دولت مند بنانے کے دعوے بھی اتنے ہی بے بنیاد ثابت ہوئے۔
ایسے تمام تجربات سے حاصل ہونے والا سبق یہ ہے کہ سیاست اور گورننس اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے اُن کی صلاحیتوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جن کی شہرت محض عوام کو تفریح فراہم کرنے تک محدود ہو۔ یہ مزاحیہ اداکاروں، کھلاڑیوں یا ٹی وی، فلم کی شخصیات کا کام نہیں کہ وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھیں۔ اگر ایسا ہوتو ان کا سیاسی طرزعمل اور مہارت دیکھی جائے نہ کہ ان کی شہرت۔ جیسا کہ مائیکل گیرسن نے اپنے کالم میں نوٹ کیا تھا، ’’شہرت یافتہ شخصیات کی بلندی حقیقی کی بجائے ظاہری صلاحیتوں کی مرہون منت ہوتی ہے‘‘۔ اس کلچر میں، ’’رقابتیں اور جھگڑے کہانی کیلئے ضروری ہیں‘‘اور اس سےڈرامائی تلخی فروغ پاتی ہے۔ پالیسی وژن پر عمل کرنے کے بجائے، مشہور شخصیت کی پہلی ضرورت اپنے برانڈ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ گیرسن کے مطابق ممکنہ طور پر مشہور شخصیت اپنے عہدے کی طاقت کو ذاتی انتقام کیلئے استعمال کرے گی۔ جب لوگ اسے ناراض کرتے ہیں تو ٹیلی ویژن پر چیخنے کے بجائے، اب اس کے پاس عملی طور پر انہیں تکلیف پہنچانے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ