ہم سب سفر تو کررہے ہیں۔ لیکن منزل کا تعین ہے نہ رہبر کا۔ حالانکہ ایک صبح حسین ہم سب کا انتظار کررہی ہے۔
پارلیمانی جمہوریت میں رہبر کے تعین کیلئے الیکشن منعقد ہوتے ہیں۔ جس کیلئے آئین میں ایک مدت متعین ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اس سے گریز کے اسباب تلاش کرتے ہیں۔ جنوری کے آخری ہفتے کی نوید سنائی گئی ہے۔ حتمی تاریخ نہیں بتائی گئی۔ عوام کس پارٹی کے ساتھ ہیں۔ اس کا اصل نتیجہ تو الیکشن کے دن ہی سامنے آتا ہے۔ مگر اس سے پہلے۔ جائزے، سروے، گیلپ پول اپنے اپنے اندازے پیش کرتے ہیں۔ یہ اندازے ہی کوزہ گروں کو اپنے ہاتھوں کی جنبش میں کچھ خاص زاویے اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی منزلیں ہیں۔ سلئے اپنے اپنے خدشات بھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خدشات کے بھی ایک نہیں کئی طوفان امڈے ہوئے ہیں۔
ہر پاکستانی کی جوانی میں ایک مارشل لا ضرور لگتا ہے۔ ہم جیسے عمر درازوں کو کئی کئی مارشل لا دیکھنا پڑتے ہیں۔ ایک پاکستان میںبھی ہمیں 1953میں جزوی 1958 میں مکمل مارشل لا ملا۔1969میں 1958کا مارشل لا تھک گیا تو ایک تازہ دم مارشل لا نصیب ہوا جو ایک پاکستان کو اپنے ساتھ ہی بہاکر لے گیا۔ 1971 کے بعد اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد اب آئین کو توڑا نہیں جائے گا۔ اقتدار کا انتقال صرف الیکشن سے ہوگا۔ مگر اس خوش فہمی کا انتقال 5جولائی 1977 کو ہوگیا۔ پھر خیال آیا کہ انتقال اقتدار سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے اشتراک اقتدار کا فارمولا اختیار کیا گیا۔ اس کیلئے پہلے 1985 کا تجربہ کیا گیا۔ غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے مجلس شوریٰ قائم کی گئی۔ جس میں امیدوار اپنی برادری، اثر و رسوخ، قبیلے کی بنیاد پر الیکشن میں حصّہ لینے لگے۔سیاسی جماعتوں کو ان با اثر افراد کی اہمیت کا احساس دلایا گیا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے پھر سیاسی جماعتوں کے لاڈلے بھی بن گئے۔ اب ہماری سیاسی تاریخ میں 1985بار بار آتا ہے۔ اس وقت بھی آیا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آپ کے سیاسی، عمرانی، سماجی، علمی اقتصادی شعور میں پختگی نہیں ہے۔
کوزہ گری جاری ہے۔ جارج آر ویل نے 1984 کے نام کا شہرہ آفاق ناول لکھا۔ جس میں بار بار یہ گھنٹی بجائی جاتی تھی۔ Big Brother is Watching بڑا بھائی دیکھ رہا ہے۔ 1949میں لکھے گئے اس ناول کے وقت نگراں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ جارج آر ویل نے چشم تصور سے نگرانی کے جو آلات وضع کیے تھے۔ وہ اب پوری دنیا میں حقیقی آنکھ سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کمیونزم اپنی تمام سخت نگرانی کے ساتھ اپنے جلوے دکھاکر جاچکا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام نفع خوری کے ساتھ موجود ہے۔ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کو جمہوریت کی فکر رہتی ہے۔کئی کئی سال پہلے سے غریب ملکوں کیلئے لیڈر تیار کرتا ہے۔ کمیونزم کی نگرانی کا اپنا نظام تھا۔ جمہوری لبادے میں سرمایہ دار حکومتوں کے نگرانی کے اپنے اصول اور آلات ہیں۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر سے ساری قوموں کا ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سی آئی اے کے ذریعے اپنے نیک مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ اپنے ملک کی حدود کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ،یورپ کے بر اعظموں کے مستقبل کی بھی فکر سی آئی اے کو رہتی ہے۔ عوام اچھے اور برے لیڈروں میں تمیز کا شعور نہیں رکھتے۔ اس لیے وہ اکثر مقبول لیڈروں کو جسمانی طور پر بھی موجود نہیں رہنے دیتی کہ ان کا وجود صرف ان ملکوں کیلئے نہیں امن عالم کیلئے بھی خطرناک ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے پہیے کو پیچھے نہیں دھکیلا جاسکتا۔ مگر سی آئی اے نے یہ کوشش بھی کامیابی سے کرلی ہے۔ ان کامیابیوں پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ یہ سرخروئی لاطینی امریکہ میں زیادہ حاصل ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں باہمی تنازعات برقرار رکھنے میں امریکہ برطانیہ ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔
1985-1984 کے تجربے اپنی جگہ۔ لیکن اکیسویں صدی میں یہ حقیقت سورج کی طرح اظہر ہے کہ جن ملکوں میں برسوں کی جدو جہد۔ یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں کی تحقیق کے بعد ایک نظام تخلیق کرلیا گیا ہے جس کے تحت ضلعی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ ان کی منزل انسان کی زندگی کو آسان تر بنانا ہے۔ وہ ریاستیں اس دَور میں ترقی بھی کررہی ہیں۔ پُر امن بھی ہیں۔ انسان وہاں محفوظ بھی ہیں۔ ہمارے نوجوان ان کامیاب ملکوں کی طرف ہی قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے رجوع کرتے ہیں ذمہ دار ریاستیں اپنے نوجوانوں کے شعور جسمانی توانائیوں کو اپنے ملک کی ترقی، خوشحالی کیلئے استعمال کرنے کی پالیسیاں بناتی ہیں۔ اقتصادی نظام ایسی بنیادوں پر استوار کرتی ہیں۔ ایسی قوموں کے دیانتدار قائدین ۔اپنے اقتصادی ماہرین کے اشتراک سے درپیش کساد بازاری۔ RECESSION۔ افراط زر INFLATION کا مقابلہ کرتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ،پرتگال، ولندیزی، فرانسیسی گزشتہ صدیوں کی استعماری طاقتوں نے اپنی سابق کالونیوں کو اب بھی غلام رکھنے کیلئے اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایسے دوسرے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔پاکستان بھی ان کالونیوں میں سے ایک ہے۔ 76سال سے پاکستان کے عوام، دانشور، عوامی سیاستدان ملک کو ذہنی اور اقتصادی طور پر آزاد کرنے کیلئے قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ مگر ہم اپنے عوام کے ذہنی شعور،سیاسی کارکنوں کی سیاسی بصیرت اور اپنے قدرتی وسائل کو اپنی مالی طاقت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ اس کے اسباب پر تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ انتخابات کے بروقت نہ ہونے سے۔ الیکشن کمیشن کے بااختیار اور غیر جانبدار نہ رہنے سے ہم ایسا مضبوط سسٹم نہیں بناسکے۔ جو عوام کی زندگی میں از خود آسانیاں لاسکے۔ یہ حقیقت بھی بار بار سامنے آچکی ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو کامیاب ملک نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ تاریخ نے بار بار یہ گواہی دی ہے کہ بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا،پنجاب میں جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسی قوم کی تمنا رکھتا ہے۔ جو مستحکم ہو، مہذب ہو اور علم کی بنیاد پر آگے بڑھے لیکن اس کو باربار مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا راستہ مختلف داخلی اور عالمی طاقتیں روکتی ہیں۔ اب ایک فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے ۔اس وقت پاکستان کے 22کروڑ غریب، متوسط طبقے کے نوجوان بزرگ خواتین اپنے سیاسی، سماجی ، اقتصادی شعور کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جو بھی اس عظیم ریاست کے ارباب اختیار ہیں۔ وہ اس تاریخی لمحے کو ایک فیصلہ کن موڑ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ الیکشن ہی عوام کے مزاج جاننے کا قانونی اور آئینی راستہ ہیں۔ الیکشن کی تاریخ مقرر کریں۔ الیکشن کمیشن کو آزادی سے انتخابی عمل مکمل کرنے دیں۔ ایک حسین صبح آزادی ہم سب کا انتظار کر رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ