طویل انتظار کے بعد سیاسی میدان میں ہلچل شروع ہو رہی ہے۔ ایک ٹیم وردیاں پہن کر میدان میں اترنےکے لئے تیار ہے مگر دوسری ٹیم نیم مردہ اور غیر متحرک ہے، ایسے میں میچ بھلا خاک ہو گا۔میچ تو تبھی مزیدار ہو گا کہ دونوں ٹیموں کو میدان میں اترنے کے برابر مواقع دیئے جائیں۔
صورتحال یہ ہے کہ کھلاڑی کے چاروں طرف دیواریں چن دی گئی ہیں نہ کوئی تحریک چلتی نظر آ رہی ہے نہ انصاف کے ایوانوں سے کوئی انقلابی فیصلہ آنے کی امید ہے نہ ہی مقتدرہ کا د ل نرم ہونے کی کوئی توقع ہے۔ سیاست میں نفرت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے سیاسی حریف چاہتے ہیں کہ کھلاڑی کو پورا رگڑا لگایا جائے، کوئی بھی اسے رعایت دینے کو تیار نہیں ۔حبس اور تنگی کے اس ماحول میں سیاست اور معیشت چلتی نظر نہیں آتی ۔ملک کو آگے لے جانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی کو راستہ دیا جائے اور اسے بھی کھیل میں شریک کیا جائے ۔
یہ درست ہے کہ کھلاڑی نے سیاست کے میدان میں بہت فاؤل کھیلے سیاست میں اپنے حریفوں کو چت کرنے کے لئے ہر حد پار کرلی، میڈیا کو بدنام کیا اور میڈیا کے ایک بڑے مالک کو کئی ماہ تک قید میں رکھا، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی کے کہنے پر ریفرنس بھیجا، جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کا ساتھ دیا ،خارجہ پالیسی کی نئی راہیں کھولنے کی بجائے بھارت سے روایتی دشمنی کی پالیسی کو جاری رکھا اور تو اور خود اپنی سرپرست فوجی قیادت سے بھی بنا کر نہ رکھی اور ملکی معیشت کو چلانے میں ناکام رہا ۔یہ ساری چارج شیٹ درست بھی مان لی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی کو میدان سے باہر ہی کر دیا جائے یہ تو فیئر پلے نہیں ہو گا، ظلم اور ناانصافی ہو گی۔نونی لیڈر اور کھلاڑی لیڈر دونوں نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن ان کی اس نفرت سے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے اگر انہوں نے نفرت کی سیاست جاری رکھی تو وہ بالآخر ملک میں جمہوریت کے خاتمے پر منتج ہو گی۔کھلاڑی پاپولر ہے اس کا بیانیہ بِک رہا ہے اوورسیز ہوں یا پاکستان کی شہری مڈل کلاس، غربت کے شکار لوگ ہوں یا مہنگائی سے پسے عوام سب کھلاڑی کو سراہتے ہیں کھلاڑی کے ساتھ ریاست کے برے سلوک سے وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی ناراض ہو رہے ہیں ۔ان کا بیانیہ نفرت، گالی اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے ایسے میں نونی لیڈر اور ریاست کی مقتدرہ کو سوچنا ہو گا کہ کھلاڑی کو سزائیں دینے سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ مسائل کا نیا انبار لگ جائے گا، یاد کریں کہ بھٹو کو پھانسی دیکر کیا بھٹو ختم ہوگیا ؟ہرگز نہیں بھٹو کی پھانسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پیپلز پارٹی خراب کارکردگی کے باوجود مسلسل پندرہ بیس برسوں سے سندھ میں حکمران ہے، مقتدرہ سندھ کے احساس محرومی کے ڈر سے مصلحت پسندی میں آکر پیپلز پارٹی کا راستہ روک نہیں پائی حالانکہ مقتدرہ کے کئی لوگ چاہتے ہیں کہ ہر صورت پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا چاہئے مگر مقتدرہ چومکھی لڑائی نہیں لڑنا چاہتی۔ نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، جیل میں رکھا گیا، 2018ء کا الیکشن ہروایا گیا ،دوبار جلاوطنی اختیار کرنا پڑی کیا انہیں سیاست سے نکالنے میں کامیابی ہوئی ہرگز نہیں۔ بالکل اسی طرح کھلاڑی کو جیل میں رکھ کر یا نااہل کرکے یا الیکشن سے باہر رکھ کر اسکی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ واحد راستہ مصالحت ہے کھلاڑی کو سسٹم میں واپس لانا ہے بہتر ہے کہ یہ آج ہی کر لیا جائے وگرنہ کل کو مجبوراً اور زیادہ سخت شرائط پر یہی کرنا پڑے گا۔کھلاڑی کو بھی اب سیاسی ڈائیلاگ اور مفاہمت کے بند دروازے کھولنے ہونگے ،اصلی اور سچی جمہوری روایات کے ساتھ جڑنا ہو گا، مقتدرہ کے ساتھ مل کر دھرنے اور گالیوں کی سیاست سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ماضی میں ہر اسمبلی کے بائیکاٹ اور بالآخر اسمبلیوں کو توڑ دینے سے انہیں جو سیاسی نقصان ہوا اس سے انہیں سیکھنا ہو گا اور آئندہ کے لئے جذباتی فیصلوں کی بجائے عقلمندی کے فیصلے کرنا ہونگے۔
9مئی کے واقعہ نے کھلاڑی اور مقتدرہ کے درمیان کھلی جنگ چھیڑ دی، سیاسی جماعت کو مقتدرہ کے ساتھ اس طرح کی کھلی لڑائی سوٹ نہیں کرتی۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں الذوالفقار نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا تو مقتدرہ نے 9مئی ہی کی طرح کابیانیہ بنا کر پیپلز پارٹی کو تخریب کار اور دہشت گردوں کی جماعت قرار دے دیا ،بے نظیر بھٹو نے بڑی خوش اسلوبی سے جہاز کے اغوا میں ملوث اپنے بھائی اور الذوالفقار سے اپنی راہیں جدا کرکے پرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اپنایا اور بالآخر مقتدرہ کو ایک دن انہیں اقتدار دینا ہی پڑا ۔کھلاڑی کو بھی پرامن جدوجہد کے راستے پر چلنا چاہئے اور تشدد یا تخریب کی طرف مائل لوگوں سے اپنی راہیں جدا کر لینی چاہئیں۔ پاکستان کو بنے 75سال ہو گئے یہاں تقریباً ہر منتخب وزیر اعظم کو جیل جانا پڑا ،ہر وزیراعظم کے خلاف عدلیہ نے فیصلے سنائے، ہر وزیراعظم کو مقتدرہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،ہر وزیر اعظم کا میڈیا ٹرائل ہوا۔ہر وزیراعظم کو نشان عبرت بنانے کی کوشش ہوئی کبھی بے نظیر،کبھی نواز شریف، کبھی زرداری یا گیلانی اور اب عمران خان۔ کیا یہ دائرہ اب ٹوٹنا نہیں چاہئے کھلاڑی کو کھیل سے باہر رکھا گیا تو اس کے لاکھوں کروڑوں مداحین کا سسٹم پر یقین ختم ہو جائے گا ،ملک میں مایوسی بڑھ جائے گی اور استحکام بھی نہیں آ سکے گا۔ وقت آگیا ہے کہ پرانے کھیل ختم کرکے انصاف پر مبنی میچ میں اترا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ