آئندہ انتخابات سے کیا امید باندھی جائے؟ : تحریر وجاہت مسعود


مارچ 2022 سے اماوس کی رات میں دلدلی جنگلوں میں چلتے ہوئے یہاں تک تو پہنچے کہ اگلے سال کے ابتدائی مہینوں میں انتخابات کی توقع ٹھوس شکل اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ 21 تاریخ کو میاں نواز شریف وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں انتخابی نوک جھونک کی ابتدائی جھلکیاں شروع ہو چکی ہیں۔ کیا یہ انتخابات ہمیں جمہوری استحکام اور معاشی ترقی کی طرف لے جا سکیں گے۔ ایسے گمبھیر سوالات کا محتاط جواب دینے کے نسخے اساتذہ صحافیوں نے سمجھا رکھے ہیں۔ جہاں گھمسان کا رن پڑ رہا ہو وہاں سے فاصلہ رکھتے ہوئے حاشیے پر جا بیٹھیے اور اشارے کنائے کے لہجے میں نواب ناطق مرحوم کو یاد کیجئے۔ ناطق کہ سخن تیرا ہے تریاق تریہا/ زمباق تریہا لکا تریاق تریہا۔ یوکرائن کی لڑائی میں یورپ کی معیشت ڈوبنے کے تذکرے سے فرصت ملے تو اٹھاسی مربع میل پر محیط غزہ کے محصور، مقہور اور مجبور بیس لاکھ فلسطینی شہریوں کا ماتم کیجئے۔ اس سے آپ کی انسان دوستی پر مہر تصدیق ثبت ہو گی۔ مسلم امہ سے آپ کی یکجہتی کو سند ملے گی۔ مصر نے غزہ کے بنیادی انسانی ضروریات سے محروم نہتے انسانوں پر سرحد بند کر رکھی ہے۔ اس کا ذکر زنہار نہ کیجیو۔ ایک اور ملک کے دس کروڑ مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے اس کی طرف اشارہ کرنا منع ہے۔ خود اپنے دیس میں جمہوریت کے نام پہ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کی تفصیل سے گریز لازم ہے۔ آخر یہ محض اتفاق ہی تو ہے کہ ٹھیک جس نمونے پر سندھ کی کم عمر ہندو بچیاں اسلام کی حقانیت قبول کر رہی ہیں جبکہ ان کے ہم عمر ہندو نوجوان لڑکے بدستور دین حق کی روشنی سے بے بہرہ ہیں، بالکل اسی طرح سے 9 مئی کے واقعات کے مجرم قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ایک پریس کانفرنس میں چند سطری بیان جاری کرنے والے گنگا جمنا میں اشنان کر کے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ایسے میں ہمیں باولے چوپائے نے کاٹا ہے کہ اس شبھ گھڑی میں بدشگونی کے کلمات سے اپنی عاقبت خراب کریں۔ یہ خیال البتہ آتا ہے کہ نصف صدی پہلے بھارت اور پاکستان کے انتخابات بھی ایک ہی مہینے یعنی مارچ 1977 میں ہوئے تھے۔ 21 ماہ پر محیط ایمرجنسی کی قیمت اندراگاندھی نے انتخابی شکست کی صورت میں چکائی جبکہ پاکستان میں بھٹو صاحب بظاہر انتخاب جیت گئے مگر انجام یہ کہ کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ کیا یہ تاریخ کا دائرہ مکمل ہو رہا ہے کہ نصف صدی بعد بھارت اور پاکستان میں جمہوریت کا سفرقریب ایک ہی جیسے حالات سے گزر رہا ہے۔

بھارت کو حال ہی میں جمہوریت کی قدر پیمائی کرنے والے اداروں نے مکمل جمہوریت سے ہائبرڈ بندوبست کا درجہ دیا ہے۔ 1921 میں فریڈم ہاؤس نے بھارتی جمہوریت کو مکمل آزاد جمہوریت کی بجائے جزوی آزاد جمہوریت قرار دیا۔ ایک اور اہم عالمی ادارے نے بھارت کو جمہوری آمریت کا نام دیا ہے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے بھارتی جمہوریت کو مستحکم کی بجائے خام جمہوریت کی درجہ بندی میں رکھا ہے۔ نتیجہ یہ کہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی پر مشتمل ملک بھارت کے جمہوری نقشے کا رنگ بدلنے سے آٹھ ارب انسانوں میں مکمل جمہوریت سے مستفید ہونے والے انسانوں کی تعداد یکایک آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی صاحب نے جمہوری ادارے برقرار رکھے ہیں لیکن مختلف اقدامات سے جمہوریت کی اقدار پر اندھا دھند کدال چلائی ہے۔آمریتوں کا حالیہ عالمی رجحان رات کے اندھیرے میں دیوار پھلانگ کر منتخب رہنما کو گرفتار کرنے یا حزب اختلاف کو جیلوں میں بند کرنے کی بجائے دزدیدہ حربے اختیار کرنا ہے۔ حزب اختلاف کو قانونی معاملات میں الجھا دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر نادیدہ پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اختلافی آوازوں کو جائز جمہوری مخالفت کی بجائے غداری کے الزامات سے متہم کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی عالمی پسپائی کا مروجہ نسخہ یہ ہے کہ انتخابی بوتھ پر ووٹوں کی ہیرا پھیری کی بجائے انتخاب سے پہلے ہی مطلوبہ صف بندی کر لی جاتی ہے۔ یہ اپریل 1655 کا فرانس نہیں جہاں لوئی چہاردہم پارلیمنٹ سے مخاطب ہو کر L’tat, c’est moi (میں ہی ریاست ہوں)کا نعرہ بلند کرے ۔ آپ کو یاد ہو گا، نومبر 2001 میں پرویز مشرف خود ساختہ صدر کی حیثیت سے پہلی بار امریکا گئے تو ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت موجود ہے اور اگر آپ کو جمہوریت کی مہر ہی درکار ہے تو میں اکتوبر 2002 میں اس بندوبست پر یہ مہر بھی لگا دوں گا۔ جنرل صاحب بات کے پکے تھے۔ جنرل احتشام ضمیر کے ضمیر سے قاف لیگ، ایم ایم اے اور پیٹریاٹ برآمد کر کے یہ مہر لگا دی گئی۔

جدید جمہوریت کے پانچ بنیادی عناصر ہیں۔ پہلا یہ کہ عوام پارلیمنٹ اور چیف ایگزیکٹو کو منتخب کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ شفاف انتخابی مقابلے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ ریاستی اداروں کو سیاسی عمل سے الگ رکھا جاتا ہے۔ چوتھا یہ کہ شہری آزادیوں کو ریاستی مداخلت سے تحفظ دیا جاتا ہے اور پانچواں یہ کہ آزاد ذرائع ابلاغ اور غیر جانب دار عدلیہ کی مدد سے حکومتی جواب دہی کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔ آج کے بھارت میں مکمل جمہوریت کی یہ سب اقدارمسخ ہو چکی ہیں۔ اب یہ دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن کا کام ہے کہ بھارت کی اس تصویر کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے موجودہ حالات پر ایک نظر ڈالے اور سوچے کہ کیا ہمارے زمینی حالات ہمیں شفاف انتخابات کی طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہمیں سیاسی استحکام نصیب ہو سکے گا؟ کیا ہم دست نگر معیشت سے پیداواری معیشت کی طرف قدم بڑھا سکیں گے؟ بجٹ اور تجارت کا خسارہ ختم کر سکیں گے؟ داخلی اور بیرونی قرض کی زنجیروں سے نجات حاصل کر سکیں گے؟

کچھ پوچھنا نہیں ہے، بتانا بھی کچھ نہیں

واقف ہیں نگہ یار تری آگہی سے ہم

بشکریہ روزنامہ جنگ