پیپلزپارٹی نواز شریف کی واپسی پر ناراض کیوں؟ : تحریر مزمل سہروردی


میاں نواز شریف کی واپسی جیسے جیسے قریب آرہی ہے ملک کا سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ ن لیگ ان کے شاندار استقبال کے لیے تیاری کر رہی ہے دیگر سیاسی جماعتیں اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے ردعمل کا تو سب کو اندازہ تھا۔ لیکن حیرانگی پیپلزپارٹی پر ہے۔اس کی پریشانی قابل دید ہے۔

تحریک انصاف کی میاں نواز شریف کی واپسی پر مخالفت کمزور ہے۔ تحریک انصاف اپنے لیڈر کے مقدمات میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس کے پاس میاں نواز شریف کی واپسی کی پرزور مخالفت کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اکثر لیڈر ویسے ہی پارٹی چھوڑ چکے ہیں ۔

جیسے جیسے چیئرمین تحریک انصاف کے کیسز آگے بڑھ رہے ہیں تحریک انصاف کے اندر سے یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، ان کے لیڈر کو جیل میں سہولیات نہیں مل رہیں وہ مان رہے ہیں کہ میاں نواز شریف سے جیل میں سہولیات چھیننا ایک غیر قانونی عمل تھا۔
ورنہ ایک وقت تھا کہ تحریک انصاف کے لیڈر اعلان کرتے تھے کہ اگر میاں نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو تحریک انصاف احتجاجی جلوس لے کر ایئرپورٹ جائے گی۔ لیکن آج تو وہ اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے جلوس نکالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر احتجاجی جلوس کیا نکالیں گے۔

سوال پیپلز پارٹی کے رویے کا ہے۔اس کی قیادت میاں نواز شریف کی واپسی پر پریشان نظر آرہی ہے۔ کل تک پیپلزپارٹی کا موقف تھا کہ اگر میاں نواز شریف نے سیاست کرنی ہے تو ملک میں واپس آئیں۔ پی ڈی ایم کے آخری اجلاس میں جب پیپلزپارٹی ن لیگ کی اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست کی مخالفت کر رہی تھی۔

آصف زرداری کا موقف تھا اگر یہ سیاست کرنی ہے تو میاں صاحب ملک میں واپس آئیں۔ لیکن آج جب وہ واپس آرہے ہیں تو پیپلزپارٹی مخالفت کر رہی ہے۔

کل تک آصف زرداری میاں نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملکر چلنے کا درس دے رہے تھے آج اسٹبلشمنٹ اور میاں نواز شریف کے درمیان مفاہمت پر شدید تحفظات ہیں۔ ویسے تو میاں نواز شریف کی واپسی پر مولانا فضل الرحمن میں بھی وہ جوش و خروش نظر نہیں آیا جس کی توقع تھی۔ جب تک وہ پی ڈی ایم کے سربراہ تھے تو وہ ن لیگ اور میاں نواز شریف کے سب سے بڑے وکیل تھے۔کل تک وہ میاں نواز شریف کا دفاع اپنا فرض سمجھتے تھے۔

بلکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلاف کے موقعے پر بھی مولانا ن لیگ کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ لیکن اب نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے پر ان کا بھی وہ مثبت رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ایک طرف توقع تھی وہ استقبال کے لیے ایئرپورٹ جائیں گے۔ تا ہم مولانا کی خاموشی بھی معنی خیز ہے کیونکہ خاموشی کی توقع نہیں تھی۔

تا ہم باقی سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی ہیں۔ ایم کیو ایم بھی خاموش ہے۔ چند دن قبل ہی گورنر سندھ لندن میں میاں نواز شریف سے ملکر آئے ہیں اس لیے ایم کیو ایم اور ن لیگ کے درمیان انتخابی تعاون کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی نواز شریف کے استقبال پر وہ خاموش ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کے بعد ایم کیو ایم اور ن لیگ کے درمیان مل کر چلنے کا راستہ نکلے گا۔

اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر میاں نواز شریف کی واپسی چھائی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے سارے منظر کو ہائی جیک کر لیا ہے مد مقابل سیاسی جماعتیں سیاسی منظر نامہ سے غائب نظر آرہی ہیں۔ اس لیے یہ بھی لگتا ہے کہ جب ساری بات میاں نواز شریف کی واپسی پر ہورہی ہے تو شاید پیپلزپارٹی نے سیاسی منظر نامہ پر خود کو برقرار رکھنے کے لیے نواز شریف کی واپسی کی مخالفت شروع کر دی ہے۔

پیپلزپارٹی پنجاب میں کوئی گیم نہیں بنا سکی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو نواز شریف کی مخالفت کے پیچھے پنجاب میں ناکامی سب سے بڑی وجہ نظر آرہی ہے۔ اگر انھیں پنجاب میں کامیابی مل گئی ہوتی تو شاید مخالفت اتنی شدید نہ ہوتی۔ بہرحال پیپلزپارٹی ن لیگ اور بالخصوص میاں نواز شریف کی مخالفت سے کیا پنجاب میں کوئی ووٹ بینک بنا سکے گی۔

مشکل نظر آرہا ہے۔ کیا تحریک انصاف اس وقت نواز شریف کی مخالفت کی پوزیشن میں ہے۔ وہ واضح طور پر کمزور نظر آرہے ہیں۔ ان کی پارٹی ٹوٹ گئی ہے اگر مان لیا جائے کہ ووٹ بینک موجود ہے پھر بھی اس ووٹ بینک کو لے کر چلنے کے لیے ٹیم نہیں ہے، امیدوار نہیں ہیں۔ پارٹی کی تنظیم نہیں ہے۔

اس لیے ان کے لیے بھی مقابلہ مشکل سے مشکل ہے۔ یہی سیاسی منظر نامہ ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اسد عمر کے موقف میں بھی تبدیلی نظر آئی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کا ملک ہے انھیں واپس آنا چاہیے۔ اسد عمر کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف انتخابات میں حصہ لیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس