غزہ ( فلسطین) کی محبوس پٹی میں بے بس اور بیکس فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بازگشت اور گونج ساری دنیا میں سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔ اب تک 2ہزار سے زائد فلسطینی (غزہ) کے شہری شہید ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی مگر ان بیچارے اور بے وسیلہ غزہ کے مکینوں کی مدد کو پہنچ نہیں رہا۔
عالمِ اسلام بھی خاموش ہے۔ عالمِ اسلام کی ایک مرکزی اور مذہبی شخصیت بھی گزشتہ روز مظلوم فلسطینیوں پر صہیونی حکومت کے نئے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے دعا میں بس رو پڑے ہیں مگر اپنے دولتمند ملک کے حکمرانوں کو غزہ کے مکینوں کی دستگیری کرنے پر مائل نہیں کر سکے۔
ہم کس باغ کی مولی ہیں؟ ہم ایک غریب، محتاج اور مقروض ملک کے باسی ہیں۔ ہم مظلوم فلسطینیوں کے لیے بس آنسو بہانے اور اظہارِ تاسف کے اور کیا کر سکتے ہیں؟ہم سے برطانوی شہری بہتر ہیں جنھوں نے مذہب ، ملت اور مسلک کی پابندیوں سے بالا تر رہ کر محض انسانیت کی بنیاد پر 14اکتوبر2023 کو لندن میں مظلوم و مغضوب غزہ شہریوں کے حق میں ایسی زبردست ریلی نکالی ہے کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے ۔
ایسے میں ہمیں بے بدل شاعر فیض احمد فیض کی ایک نظم (بعنوان فلسطینی بچے کے لیے لوری) یاد آ کر رہ گئی ہے اور آنکھیں اشکبار ہو گئی ہیں:مت رو بچے/رو رو کر ابھی/ تیری امی کی آنکھ لگی ہے /مت رو بچے/ کچھ ہی پہلے / تیرے ابا نے / اپنے غم سے رخصت لی ہے /مت رو بچے/ تیرا بھائی/اپنے خواب کی تتلی پیچھے/دور کہیں پردیس گیا ہے/ مت رو بچے/تیری باجی کا/ ڈولا پرائے دیس گیا ہے/مت رو بچے/تیرے آنگن میں/مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں/چندرما دفنا کے گئے ہیں/مت رو بچے/ امی،ابا، باجی،بھائی/ چاند اور سورج/ تو گر روئے گا تو یہ سب/اور بھی تجھ کو رلوائیں گے ۔
چند دن قبل اِنہی صفحات پر بانیِ جماعتِ اسلامی اور ہمارے ملک کے ممتاز ترین عالمِ دین اور مفکر و مصنف،سید ابوالاعلی مودودی ، کے بارے میں ہمارا ایک کالم شایع ہوا تھا۔یہ کالم دراصل مولانا مودودی صاحب علیہ رحمہ کی بڑی صاحبزادی، محترمہ سیدہ حمیرہ مودودی، کی لکھی گئی شاندار کتاب شجر ہائے سایہ دار پر ایک قسم کا ریویو تھا۔
اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے، بذریعہ ای میلز، اِس کالم پر بہت سے ردِ عمل سامنے آئے۔ سب کا شکریہ مگر سب کے خطوط شاملِ اشاعت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اِن مکرمین میں ایک انجینئر ایم حفیظ الر حمن صاحب بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے خط میں مولانا سیدمودودی سے وابستہ چند یادوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اب یہ قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش ہے۔
وہ لکھتے ہیں: میں جب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیرتعلیم تھا، کئی مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ کے دوستوں کے ساتھ 6 ذیلدار پارک اچھرہ (لاہور)میں مولانا مودودی صاحب کی مجالس میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ وہ عصر سے مغرب تک اپنے گھرکے صحن میں تشریف فرما ہوتے جہاں ہر کوئی ان سے ملاقات کرسکتا تھا۔
لوگ ان سے دینی، سماجی اور سیاسی سوالات کرتے۔ مولانا ہر ایک کو شافی وکافی جواب دیتے۔ عصر اور مغرب کی نمازوں کی امامت بھی مولانا مودودی خود کراتے۔ نمازِ مغرب کے بعد یہ مجلس برخاست ہوجاتی اور مولانا اپنے گھر واپس چلے جاتے۔
میری دوسری یاد 1970 کے انتخابات کے زمانے کی ہے۔ یہ یاد نہائت تلخ ہے۔ میں اس وقت جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں زیرتعلیم تھا۔ اس دور میں شرفا کی پگڑیاں بھی اچھالی گئیں۔ سب سے زیادہ مولانا مودودی کی پگڑی اچھالی گئی۔
یہ پگڑی اچھالنے میں جہاں کئی دینی ولادینی حلقے مصروف تھے، وہاں مولانا کا ایک شاگردِ خاص اور ان کی نفیس صحبت کا پروردہ شخص سب سے آگے تھا۔ یہ صاحب اپنے نام کے ساتھ مولانا بھی لکھتے تھے۔
بھٹو دور میں وہ وفاقی وزیر بھی بنے۔اِن صاحب نے اپنے جریدے میں مولانا صاحب کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ تاہم آفرین ہے سید مودودی پر کہ انھوں نے کبھی بھی ان خرافات کا نوٹس نہ لیا ۔ہمیشہ صبر ہی کیا۔
میری تیسری یاد بھی اِنہی صاحب سے وابستہ ہے جو مولانا مودودی صاحب پر رقیق حملے کیا کرتے تھے۔ 90 کی دہائی میں بسلسلہ ملازمت میں اسلام آباد میں مقیم تھا۔ اسلام آباد ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں ان صاحب نے بھی خطاب کیا۔
اس میں انھوں نے 1970کے دوران مولانا مودودی کے خلاف اپنے بیہودہ اور قابلِ گرفت کردار پر بھرپور اظہارِ ندامت کرتے ہوئے کہا: مولانا مودودی جب امریکا میں اپنے بیٹے کے پاس زیرِعلاج تھے تو میں خصوصی طور پر ان سے ملنے اور معافی مانگنے امریکا گیا۔ مولانا مودودی بستر علالت پر دراز تھے۔
میں نے مولانا صاحب کے پاں پر اپنا سررکھ دیا اور زاروقطار روتے ہوئے ان سے اپنی گستاخیوں کی معافی مانگی۔ مولانا پہلے تو خاموش رہے، پھر اپنی ٹانگیں سکیڑ لیں اورفرمایا: میرا دل تم سے صاف ہے، اب تم اپنے خدا سے معافی مانگو۔ موصوف نے بتایا کہ میں اب ہر وقت اللہ سے اپنے اس جرم کی معافی کا طلبگار رہتا ہوں۔
میری چوتھی یاد ایک اور تقریب سے منسلک ہے جو تکمیلِ تفسیرِ تفہیم القرآن کے سلسلے میں ٹان ہال لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے مقررین میں الطاف گوہر، بیرسٹر ایم انور بار ایٹ لا اور اے کے بروہی شامل تھے۔ اس تقریب کے اسٹیج سیکرٹری آغا شورش کاشمیری تھے۔
اس تقریب میں جناب جاوید ہاشمی نے بھی خطاب کیا تھا۔ مجھے ان کا یہ فقرہ ابھی تک یاد ہے : مولانا! آپ کی تربیت نے ہمیں لوہے کے وہ چنے بنا دیا ہے جو لادینی قوتوں سے نہ اگلے جاتے ہیں اور نہ نِگلے جاتے ہیں بلکہ ان کے دانت ہی توڑ دیتے ہیں۔
آپ کے کالم نے میری یادوں کے یہ دریچے کھول دیے۔ مولانا مودودی مسلم امہ کے لیے اللہ تعالی کا انعام تھے۔ وہ ہر اتوار کی صبح قلعہ گوجر سنگھ کی ایک مسجد میں درسِ قرآن دیتے، اپنی جماعت کے رسالہ ترجمان القرآن کا اداریہ لکھتے، لوگوں کے خطوط کا جواب دیتے جو انھیں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ملتے تھے۔
یہ خطوط ان کی کتاب رسائل و مسائل کی جلدوں میں شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بے شمار کتابوں کی تصنیف کرتے۔ سیاسی میدان میں بھی وہ ایک متحرک کردار کے حامل رہے۔ ان کی ہمہ صفت شخصیت نے جماعتِ اسلامی جیسی منظم اور موقر جماعت کی تشکیل کی جو برصغیر کے ہر گوشے میں اپنا وجود رکھتی ہے۔
مولانا کی فکر، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے گراں بہا سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی بنا پر انھیں سعودی عرب نے شاہ فیصل ایوارڈ کے اولین اجرا کا حقدار قرار دیا۔افسوس مولانا صاحب مرحوم کو اپنے ملک میں وہ تکریم نہ ملی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ آپ نے ان کی صاحبزادی( سیدہ حمیرہ مودودی) کی کتاب (شجر ہائے سایہ دار) کا ذکر کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعتا ایک عظیم ہستی کی تربیت یافتہ ہیں۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی ایک ویڈیو میں سید مودودی کو اسلامی اخلاق کا اعلی ترین نمونہ قرار دیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی عظیم المرتبت علمی شخصیت کا اِس سے بڑا اور کیا اعتراف ہو سکتا ہے کہ ان کے کٹڑ مخالف بھی ان کی کتابوں کے خوشہ چین ہیں۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ۔آمین۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس