آزادی کے برعکس لفظ غلامی استعمال کیا جاتا ہے۔ آزادی کی تعریف غلامی کی عدم موجودگی ہو سکتی ہے۔ وہ غلامی جو پرانے وقتوں میں یونان جیسے علم وفن کے مرکز ملک اور قبل از اسلام عربوں میں اس طرح جائز تھی کہ غلاموں کی حیثیت پالتو جانور جیسی بھی نہیں تھی کہ جس سے کام بھی لیا جائے اور جس کا خیال بھی رکھا جائے۔ غلامی کبھی ختم نہ ہوسکی شکلیں بدلتی رہیں۔ آج بھی تیسری دنیا کے لوگوں کی حیثیت یونان کے غلاموں سے زیادہ بہتر نہیں۔ جن کے وسائل پر قابض قوتیں انھیں کسی فیصلے کا اختیار دینے کو تیار نہیں۔ اب بھی کئی طاقتوروں کے گھروں میں ایسی جیلیں موجود ہیں جہاں لوگوں سے صرف دو وقت کی روٹی کے عوض جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔انھیں حکم عدولی اور من مرضی کا اختیار نہیں۔ ان کی زندگی کے سارے فیصلے آقا کے ہاتھ ہوتے ہیں لیکن انہیں غلام نہیں سمجھا جاتا ملازم کہا جاتا ہے تو کیا ملازم اور غلام میں کوئی قدر مشترک ہے۔ شاید نہیں اس لیے کہ ملازم ایک طے شدہ اوقات کار میں طے شدہ ضابطے کا پابند ہوتا ہے اور ضابطہ دراصل معاشرتی تعاون پر مبنی ہوتا ہے۔تا ہم آزادی ایک مبہم لفظ ہیں اتنا مبہم کہ اس کی تعریف ممکن ہی نہیں۔
مختلف مکتب فکر کے عالموں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں نظریہ مکانکیت کے مطابق انسان خارجی قوتوں کے سامنے مکمل طور پر مجبور ہے اسے کسی بات کا فیصلہ کرنے یا اس کی شروعات کرنے کا اختیار ہی نہیں ۔جبریت کے پیروکار کہتے ہیں کہ آزادی فریب نظر ہے۔تو پھر آزادی کیا ہے؟ آزاد ملکوں میں رہنے والے اپنی ریاست، حکومت اور قوانین ساز اداروں سے کیوں شکوہ کناں رہتے ہیں۔ روسو فطری زندگی کو خیر اور تمدن کو شر کہتا ہے کیونکہ تمدن کے باعث قوانین وجود میں آئے جس نے انسان کو محدود پابندیوں میں جکڑ کر محدود کر دیا۔ اگر دنیا کے تمام انسانوں کی فکر روسو جیسے فلسفیوں، اور صوفیوں کی مانند ہوتی جو خیر کو زندگی کا اصول سمجھتے ہیں تو سب خیر تھی مگر دنیا میں اکثریت کا عقلی معیار اوسط درجے کا ہے جن کی فکر اپنی ذات کی خوشی اور ناخوشی کے گرد گھومتی ہے۔ جو اپنی ضرورت سے بڑھ کے حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ضرورت سے زیادہ کے حصول کی خواہش جبر، ناانصافی اور غلامی کی بنیاد بنتی ہے۔ اپنی مسرت کیلئے دوسروں کی آزادی مصلوب کرنیوالاانسان خود بھی خواہشات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ انسانی جبلت میں موجود قبضے اور طاقت کی خواہش کے شَر کوعلم کا منتر اور گیان ہی قابو کرکے خیر میں ڈھال سکتا ہے۔
ہمارے سامنے آزادی کے دو تصور مثبت اورمنفی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔اپنی آزادی کی خواہش ہمیں ایک سماجی معاہدے کا پابند کرتی ہے جس کا مقصد دوسروں کی آزادی کا احترام ہے یہ آزادی کا مثبت تصور ہے۔معاشرے میں ہر انسان ایک دوسرے کے علم وہنر اور خدمات سے مستفید ہوتا ہے۔ یوں تعاون کرنا اس کی مجبوری اور ذمہ داری ہے۔ اسے آزادی کا مثبت تصور کہہ سکتے ہیں جو حقوق وفرائض یا جیو اور جینے دو کی عکاسی ہے۔جبکہ منفی تصور مکمل آزادی کا تصور ہے جس میں انسان ہر کام اپنی مرضی سے سرانجام دینا چاہتا ہے۔ مارکس اس تصور کو خواہشات کی غلامی سے تعبیر کرتا ہے۔کیونکہ انسان فطرتاً خونخوار جانور ہے جسے مکمل آزادی میسر ہو تو وہ دوسروں کی زندگیاں تہس نہس کر دے۔ مہذب معاشرے علم، ادب اور فن کے ذریعے انسان کی فطرت میں موجود درندگی کو شائستگی میں تبدیل کرتے ہیں اور قوانین کے ذریعے سرکشی کو قابو کر کے نظم ونسق بحال رکھتے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہمیں کیسی آزادی چاہیے؟ اگر ہم آزادی مطلق کے بھی خواہش مند ہیں اور نظم و ضبط کا تحفظ بھی مانگتے ہیں تو بیک وقت یہ دونوں چیزیں ممکن نہیں ہیں۔ہر زمانے میں آزادی کے تصور کے حوالے سے قوموں کے ذہنوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔وقت اور حالات کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق آزادی کا تصور بدلتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ اتنی کامل آزادی کے قائل ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی موجودگی برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ ناپسند کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ژاں پال سارتر جیسا مفکر دوسروں کی موجودگی کو جہنم قرار دیتا ہے کیونکہ دوسرے اس کے نزدیک فرد کی آزادی میں رکاوٹوں کا باعث بنتے ہیں۔ کسی بھی آزاد معاشرے میں فرد پر خارجی دباؤ موجود رہتا ہے اگرچہ ہم سب اپنی زندگی کا نصب العین منتخب کرنے میں آزاد ہیں مگر ہمیں دوسروں کو نقصان پہنچانے کی آزادی ہرگز نہیں۔ ان کی پسند ناپسند طے کرنا ہمارا کام نہیں ہمیں اپنی پسند اپنی ذات تک محدود رکھنی ہے دوسروں پر جبراََ مسلط نہیں کرنی۔ اگر ہم بہتری کے متمنی ہیں تو اپنے بہتر رویے کو وسیلہ بنائیں۔۔مسئلہ تب بنتا ہے جب آپ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے دائرہ کار سے باہر نکل جاتے ہیں۔ آزادی کی حد اپنی ذات کا اتنا دائرہ ہے جہاں کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں ہوسکتی اور نہ اسے کوئی گزند پہنچ سکتا ہے۔۔سو میسر آزادی سے لطف اندوز ہونےکی کوشش کریں۔اگر ریاست سے آپ کو شکوہ ہے تو رائے عامہ کو ساتھ ملا کر قوانین میں تبدیلی کے رستے پر چلیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ