واہگہ سے گوادر تک قرائن و آثار کہہ رہے ہیں کہ ہم پھر نوازے جانے والے ہیں ۔ملک کے اکثر اداروں کاروباری گروپوں نے اپنے آئندہ کا شیڈول اسی روشنی میں تیار کرنا شروع کردیا ہے کہ اب میاں محمد نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنائے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ خبریں رواں دواں ہیں۔ اب یقیناً یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم سب میاں نواز شریف کو ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور ہر نیک و بد کے لیے تیار رہیں۔ میاں صاحب نے ہر چند سپریم کورٹ سے معزولی کے بعد یہ کہا تھا کہ وہ نظریاتی ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن 1985سے اب تک کے ماہ و سال ہمیشہ یہ سرگوشی کرتے ہیں کہ میاں صاحب کو سمجھنے کے لیے نظریات جاننے کی زحمت نہیں کرنی چاہئے بلکہ صرف اور صرف سکّہ رائج الوقت کو سمجھیں تو معاملات خود واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سوشلزم، کمیونزم، کیپٹل ازم کا تناظر بھی لازمی نہیں ہے۔ نہ ہی بھٹو ازم یا اور کسی مقامی ازم یا عزم کی۔ اسے بیالوجی، سائیکلوجی، ٹیکنالوجی کے وزن پر نوازیالوجی کا ٹائٹل دے کر دو تین سمسٹر کرانے کافی ہیں۔ انہیں لایا تو جارہا ہے 5سال کیلئے۔ لیکن میاں صاحب کے مزاج کے تناظر میں کسی نہ کسی چیف سے تکرار میں یہ مدّت درمیان میں ختم ہوسکتی ہے۔ یہ عادتیں بدلنے کی عمر ہے نہ ہی کچھ ایسا بتایا جارہا ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی مشق کی گئی ہے ۔اب ایک حلقہ جو محترمہ مریم نواز کی شعلہ بیانی اور انداز جہانبانی سے خوف زدہ ہے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ 73 سالہ میاں صاحب عمر، صحت، ذہنی توانائی کے سیاق و سباق میں خود اپنے اختیارات استعمال نہیں کرسکیں گے۔ اصل حکومت 49سالہ مریم نواز صاحبہ کی ہوگی۔ عمر رسیدہ قیادت کے برعکس ایک جواں سال۔ جواں عزم لیڈر شپ زیادہ تیزی سے فیصلے کرسکے گی۔
آج اتوار ہے، بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر ایک ساتھ بیٹھنے اور حالات حاضرہ پر تبادلۂ خیال کرنے کا دن۔ اور نماز عصر کے بعد اپنے محلے والوں سے قربت اور ہم خیال کے لمحات۔ ایسے فیصلہ کن حالات میں آپس میں یہ نزدیکیاں زیادہ ضروری ہوجاتی ہیں۔ آج میری یہ درخواست ہوگی کہ میاں صاحب کے گزشتہ ادوار کی روشنی میں ان کے آئندہ ممکنہ 5سالہ حکومت پر تبادلہ خیال کریں۔ 2013-
1996-1990- 1988- 1985 کی نسبت 2023 کا آخر:2024 کا آغاز بہت مختلف ہیں، بہت خطرناک، معاشی اعتبار سے پاکستان کی حالت ایسی دگرگوں کبھی نہیں تھی۔ پاکستانی کرنسی اس حد تک کبھی نہیں گری تھی۔ قرضوں کا بوجھ بھی اتنا نہیں بڑھا تھا ۔ عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے اور نفرتیں اتنی شدید کبھی نہیں تھیں۔ مسلم لیگ(ن) کے 72سالہ شہباز شریف،74سالہ خواجہ آصف، 68سالہ رانا ثناء اللہ،73سالہ اسحاق ڈار،64سالہ احسن اقبال۔ صرف ماضی کے حوالے دے رہے ہیں کہ میاں صاحب نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا،روپے کو مستحکم کیا لیکن یہ جو 2023 ہے۔ جو عالمگیر کووڈ کی معاشی تباہیوں اور اقتصادی امکانات کے محدود ہونے کے بعد آیا ہے اور جس کے 16 ماہ میں مسلم لیگ(ن) اپنی کوششوں،بے حساب اختیارات، عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے باوجود زوال کو نہیں روک سکی۔ میاں صاحب اسی 16 ماہ والی ٹیم کے ساتھ کیسے کایا پلٹ سکیں گے۔
کوئی ایک شخص عقل کل نہیں ہوتا۔ ہر ملک اب ایک عالمی نیٹ ورک کا حصّہ ہے۔ الگ تھلگ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ہر پاکستانی کی خواہش ہے اور دل سے دُعا ہے کہ پاکستان کی عظمت رفتہ واپس ہو۔ بلوچستان، کے پی کے، سندھ،پنجاب، جنوبی پنجاب، آزاد جموں کشمیر،گلگت بلتستان کے نوجوان اپنے مستقبل پر اعتماد کرسکیں۔ کسی دوسرے ملک جانے کی نہ سوچیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم سر زمین کو قدرتی معدنی، آبی، فضائی، زرعی وسائل بہت زیادہ دیے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی معدنی، زرعی، آبی، فضائی پالیسیاں کیا ہوں گی۔ کیا اس سلسلے میں کوئی کمیٹیاں کام کررہی ہیں۔ موجودہ شرح نمو سے واپس 6یا 7فی صد شرح نمو تک پہنچنے کے مراحل طے کیے جارہے ہیں۔
ہم پاکستان کے عوام تو میاں محمد نواز شریف کو ان کے 38 سالہ دَور سیاست و حکمرانی کے تناظر میں ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دائیں بازو کے نظریاتی منظر نامے میں جن حلقوں کی حمایت سے آگے بڑھے۔ وہ اب ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ پہلے وہ جنرل ضیاء الحق کے مشن کو آگے لے چلنے کا عہد کرتے تھے۔ پھر انہوں نے ضیا دشمن پی پی پی سے میثاق جمہوریت کیا۔ انہیں تاریخ نے دو تہائی اکثریت بھی فراہم کی۔ کیا اس طاقت کو انہوں نے ملک کی خوشحالی کے لیے استعمال کیا۔ بلوچستان اور سندھ میں مسلم لیگ(ن) اپنے قدم کیوں نہیں جماسکی۔
ہم تو میاں نواز شریف کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ آئندہ 5سال ان کے ساتھ گزارنے ہیں۔ خود میاں محمد نواز شریف ہم بے نواؤں کو سمجھنے کی کیا صورت تراش رہے ہیں۔ اب پاکستان 1990 ۔ اور حتیٰ کہ 2013 والا پاکستان بھی نہیں ہے۔ کووڈ نے معاشی طور پر دنیا کو بدل دیا ہے۔ 71 سالہ عمران خان کی ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف کرپشن کے حوالے سے مسلسل مہم نے بھی عوام کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ 2014کے دھرنوں سے لے کر اس کی حکمرانی کے 3½ سال اور خاص طور پر 16ماہ کی عمرانی اپوزیشن نے۔ سوشل میڈیا پر وڈیوز آڈیوز نے عدالتی کارروائی نے بھی پاکستان کا ذہنی نقشہ بدل دیا ہے۔
تین دفعہ وزارت عظمیٰ کے عظیم مسند پر فائز رہنے کے باوجود اب وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے بہت سے نئے بت تراش رکھے ہیں۔ پاکستان کا مزاج اب فوڈ پانڈا، آن ڈرائیو، ٹک ٹاک، وڈیوز، آڈیوز والا ہے۔ سری پائے نہاری والا نہیں ہے۔ یہ پرنٹ میڈیا والا پاکستان نہیں ہے، جب کئی کئی صفحات کے اشتہارات دے کر دوسروں کی خبریں روک دی جاتی تھیں۔ نہ ہی صرف چینلوں والا پاکستان ہے۔ جہاں کئی کئی منٹ کی متحرک تشہیری مہم چلاکر دل مطمئن ہوجاتے تھے۔ بہت کچھ منفی آگیا ہے۔ ڈس انفارمیشن پر انفارمیشن غالب آگئی ہے۔ کارواں کے دل میں احساس زیاں زیادہ آگیا ہے۔ پنجاب بھی اب پہلے والا پنجاب نہیں ہے۔
ہر پاکستانی کو خود کفیل، خوشحال بنانا آمدنی اور اخراجات میں برابری کے لیے۔ بلوچستان، کے پی کے، سندھ، جنوبی پنجاب ، پنجاب کی 60 فی صد نوجوان آبادی کو قائل کرنا ہے۔ آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔اس مشن میں جلسوں، تقریروں سے نہیں۔ خلوص نیت، ایثار سے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے سے سرخروئی ہوگی۔
زمیں میر و سلطاں سے بے زار ہے
پرانی سیاست گری خوار ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ