ہمارے ایک بہت قریبی دوست اور سابق رکن اسمبلی جو گذشتہ عام انتخابات سے پہلے ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ،آئندہ کے لیے کسی بھی سطح کے انتخاب میں حصہ لینے سے تاحیات نااہل قرار پا گئے تھے،ان کے حامیان کی طرف گذشتہ روز مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد کے حوالے سے ایک خیر مقدمی اشتہار نظر سے گزرا۔۔۔اشتہار میں نہ صرف میاں نواز شریف کو آئندہ کا وزیراعظم قرار دیا گیا تھا بلکہ مذکورہ دوست کے لیے ان کے حامیان کی طرف سے آمدہ انتخابات میں یقینی رکن اسمبلی جیسی نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا گیا تھا ۔۔۔خبر یقینا ہمارے لیے دھماکہ خیز تھی، ایک ایسا فرد جو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا اس کے لیے متوقع رکن اسمبلی کس توقع کے تحت لکھا گیا،پھر ساتھ ہی اسمبلی سے منظور ہونے والی وہ قرارداد اور پھر عدالت عظمی کی طرف سے اسے قانونی تحفظ دینے کا سارا عمل نظروں کے سامنے گھوم گیا ۔۔۔۔جس کے تحت کسی بھی حوالے سے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال قرار دی گئی ھے جس کی روشنی میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکنان اپنی پارٹی کے قائد میاں نوازشریف کی لندن سے وطن واپسی اور عام انتخابات کی مہم کی قیادت کے حوالے سے ان کے بھر پور استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں بلکہ انہیں ملک کا آئندہ وزیر اعظم بھی بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں،اس سارے منظر کو دیکھ کر ھم تو گویا حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے،ھم سوچ رہے تھے کہ اگر بالفرض اس قانون پر عملدرآمد ہو بھی جاتا ھے کہ نااہلی کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال ھے تو ہمارے دوست کی ایک بات تو سمجھ آتی ھے کہ اس کی گذشتہ انتخابات میں نااہلی کی سزا اب پانچ سال پوری ہو چکی ھے تو وہ خود بخود آئندہ انتخابات کیلیے اہل قرار پا جانے کے باعث خود کو متوقع رکن اسمبلی لکھ سکے لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کے آئندہ وزیر اعظم کے لیے میاں نوازشریف کے حق میں شروع کی گئی مہم کس حوالے سے ھے،ہمارے خیال کے مطابق میاں نوازشریف کو نہ صرف اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا بلکہ ان کے خلاف درج کئی مقدمات کے تحت انہیں عدالت کی طرف سے سزا بھی سنائی گئی تھی ۔۔۔۔صرف یہی نہیں بلکہ بیماری کے علاج کے لیے جب انہیں دیار غیر بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو وہ سرکاری جیل میں سزا بھی بھگت رہے تھے۔۔۔تو اب جب طویل عرصہ کے بعد وہ واپس اپنے ملک تشریف لارہے ہیں تو کیا ان کی جیل کی سزا ختم ہو چکی ھے۔۔۔یقینا ایسا نہیں ھے۔۔۔شاید اسی صورتحال کے باعث پارٹی قیادت نے ان کے آنے سے پہلے ہی ان کی حفاظی ضمانت اپلائی کر دی ھے تاکہ وہ 21اکتوبر کے متوقع استقبالی ہجوم سے بخیر و عافیت مخاطب ہو سکیں۔۔۔۔اب سوال یہ ھے کہ اگر وہ جیل سے براہ راست لندن گئے ہیں تو کیا انہیں واپس جیل نہیں جانا چاہئے۔۔۔؟کیا حفاظتی ضمانت کی منطوری یا اس میں کسی متوقع اضافے کے بعد میاں نوازشریف کی جیل کی سزا ختم ہو جائے گی یا کیا عدالت سے ملنے والی سزا بھی سکڑ کر پانچ سال کے اندر آ جائے گی یقینا ایسا نہیں ھے،،ہماری سمجھ کے مطابق استقبالی جلسے سے خطاب کے بعد جب میاں نوازشریف عدالت کے سامنے سرنڈر کریں گے تو عدالتی قوانین کے مطابق انہیں گرفتار کر کے دوبارہ جیل بھیج دیا جائے گا،میاں صاحب کے جیالے یقینا ہماری اس رائے سے سیخ پا تو ہونگے لیکن یہ ان کا معاملہ ھے،ایک مجرم کی جیل سے علاج کیلیے بیرون ملک منتقلی اور بعد ازاں واپسی پر اس کی دوبارہ گرفتاری پر اپنی رائے دینا یقینا ہمارا بھی اتنا ہی حق ھے جتنا ان کے جیل سے باہر رہنے پر ان کے حامیان کا،ہماراگمان ھے کہ نگران سیٹ اپ تمام تر ہمدردی کے باوجود میاں نوازشریف کو کسی قسم کی غیر قانونی سپورٹ فراہم کرنے سے اجتناب کرے گا اور قانون کے مطابق ان کی اگلی منزل ایک بار پھر جیل ہو گی۔۔۔۔ حرج کیا ھے گمان کرنے میں۔۔۔۔؟