مسیحا، نجات دہندہ اور ہیرو : تحریر حسین حقانی


چارلس ڈی گال فرانس کی جدید تاریخ کی عظیم شخصیت تھے۔ انھوں نے نازی جرمنی کے خلاف مزاحمت کو منظم کیا، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی عارضی حکومت کی قیادت کی اور ریاست کی سرپرستی میں چلنے والی سرمایہ دارانہ معیشت کو متعارف کرایا جس نے تیس برسوں میں ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ جب 1958 میں الجزائر کی جنگ کے دوران فرانس کا سیاسی نظام منہدم ہو گیا تو ڈی گال دوبارہ اقتدار میں آگئے۔

چارلس ڈی گال نے آئین تجویز کیا جس میں صدر کا عہدہ طاقتور تھا۔اسی آئین کے تحت دو بار صدر منتخب ہوئے۔ فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت کا خاتمہ کرکے الجزائر میں جنگ بند کی، اور ان کی صدارت میںفرانس دنیا کی چوتھی ایٹمی طاقت بنا۔ اگرچہ ڈی گال یورپی اتحاد کے داعی ہونے کی بجائے فرانسیسی قوم پرست تھے لیکن انھوں نے اس یورپی اتحاد میں اہم کردار اد ا کیا جو آگے چل کر یورپی یونین کی صورت پروان چڑھا ۔ لیکن ان میں سے کسی بھی کامیابی نے ان کی زبان سے یہ نہیں کہلوایا کہ وہ فرانس کیلئے ناگزیر ہیں ۔

درحقیقت ڈی گال نے خود کو اور دوسروں کو یہ یاد دلانے کیلئے تواتر سے کہا کہ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جو خود کو ناگزیر قرار دیتے تھے۔گویا کسی فرد کو اتنا اہم نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ اس کے بغیر کسی قوم یا ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔

فرانس کی مثال دینے کی ایک وجہ ہے۔ایک ایسا ملک جو عشروں کے سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھا، اور جنرل ڈی گال وہ شخص تھے جنھوں نے ملک کو اس عدم استحکام سے نکالاتھا۔ قیام پاکستان سے ہی ہمارے ہاں لیڈروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی کسی مسیحا یا نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں۔ تقریبا ہر بڑی عوامی شخصیت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ ان کا منتخب رہنما ملک کو درپیش تمام مسائل کا علاج رکھتا ہے۔ اور خود رہنماؤں، فوجی آمروں سے لے کر سیاست دانوں اور کھیلوں کے ہیروز تک، کو یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ ملک کیلئے ناگزیر ہیں۔

اگر پاکستانی رہنما جنرل ڈی گال سے کوئی سبق سیکھ سکتے ہوں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ ہر قیمت پر عہدے سے چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں۔ ایک محب وطن اپنے خیالات کو عوام کے سامنے رکھتا ہے۔ اگر لوگ ان کی حمایت کریں تو وہ ان کو نافذ کرنے میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ جب عوام اپنی حمایت سے دستبردار ہو جائیں تو یہ اس کیلئے نجی زندگی کی طرف لوٹنے کا وقت ہوتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں کو غیر ملکی ایجنٹ یا غدار قرار دینے کی ضرورت نہیں۔ بعض اوقات آپ کے خیالات منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد بھی ملک کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح پاکستانی عوام کو بھی ڈی گال کے فرانسیسی حامیوں سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ قائدانہ کردار کیلئے کسی کو صحیح آدمی سمجھنا ایک بات ہے۔ یہ یقین کرنا بالکل دوسری بات ہے کہ آپ کے پسندیدہ مسیحا یا نجات دہندہ کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔ فرانس میں بہت سے لوگ ڈی گال کے معترف تھے ، ان سے محبت کرتے تھے لیکن انھوں نے یہ موقف کبھی اختیار نہیں کیا کہ ہمارا لیڈر ہوگا، ورنہ کچھ نہیں بچے گا، جیسا کہ ہم گاہے گاہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دیکھتے آئے ہیں ۔ سیاسی تحریک اور شخصیت پرستی میں فرق ہوتا ہے۔ فرانسیسیوں نے یہ نکتہ سمجھ لیا، لیکن بہت سے پاکستانی ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔ ڈی گال کی سیاست سے سبکدوشی اور ان کی وفات کے بعد بھی فرانس میں گالسٹ سیاسی رجحان موجود ہے۔

مسیحا، نجات دہندہ اور ہیروز کی راہ میں آنکھیں بچھانے کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں جو گورننس کو بہتر بنا سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر حکومت، سول ہو یا فوجی، ان افراد کے گرد گھومتی رہی ہے جن کے ہاتھ میں زمام اختیار ہوتی ہے۔ عوامی طور پر معلومات کا اشتراک اور کھلے بحث و مباحثے کے بغیر پالیسی سازی کی جاتی ہے۔ ایک حکومت کی طرف سے کیے گئے وعدے اکثر اس کے جانشینوں نے پورے نہیں کیے ہیں۔

ایسی فیصلہ سازی عام طور پر بے ترتیب اور بے ربط ہوتی ہے۔ حکومتی بندوبست کا بستر گول ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ چونکہ حکومتوں میں تبدیلیاں خود ہی غیر متوقع ہوتی ہیں، اس لیے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کوئی پالیسی کب تک چلے گی۔ صرف وہی لوگ جو محسوس کرتے ہیںکہ وہ طویل المدتی بندوبست کے بغیر زیادہ اور تیزی سے دولت کما سکتے ہیں ، صرف وہی ایسے ماحول میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ چند کثیرملکی کھلاڑی میدان میں رہتے ہیں کیوں کہ انھیں امیدہوتی ہے کہ عالمی پشت پناہی ان کے کاروبار کا تحفظ کرے گی۔ مقامی کاروباری اداروں یا محنت کر کے مقام بنانے والوں کی پاکستان کے معاشی اکھاڑے میں کوئی جگہ نہیں ۔ اس کا اقتصادی سفر ایک آئی ایم ایف پیکیج سے دوسرے آئی ایم ایف پیکیج تک جاری رہتا ہے ۔

طویل المدتی اور پائیدار اقتصادی ترقی کیلئے مستحکم سیاسی فریم ورک درکار ہے۔ سیاسی استحکام کا مطلب کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کے اقتدار کا تسلسل نہیں ۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد اٹلی نے 78 سال میں 70 حکومتیں دیکھی ہیں۔ جاپان تقریبا ہر دو سال بعد اپنا وزیراعظم تبدیل کرتا ہے۔ ان قوموں میں استحکام انکے سیاسی نظام کے تسلسل سے ملتا ہے۔ وزیراعظم کے دفتر میں چہرے کی تبدیلی سے معاشی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں۔ افراد کی خواہشات ادارہ جاتی جانچ کے تابع ہوتی ہیں ۔ زیادہ تر کامیاب ممالک کے رہنما عملی اتفاق رائے بنانے والے اور پالیسی ساز ہیں۔ وہ اپنے ملکوں کو چلاتے ہیں ، یہ دکھاوا نہیں کرتے کہ وہ اسے بچا رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد سے پاکستان نجات دہندگان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ہر نجات دہندہ نے پہلے سے موجود بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے گورننس کا پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈی گال نے فرانس پر نازی تسلط کے خلاف عملی طورپر مزاحمت کی۔ کئی مواقع پر آگے قدم بڑھا کر بحران پر قابو پانے کیلئے فرانسیسی قوم کے سامنے منصوبے رکھے اور بتایا کہ انھیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے کچھ فیصلے اور اختیار کردہ طریقے غلط بھی تھے لیکن نہ تو ڈی گال نے اور نہ ہی فرانس نیقوم کو بچانے والا عظیم ہیرو کا تصور ارزاں کیا ۔ اور پاکستان کی سیاسی سوچ میں یہ تصور اہم ترین عنصر کے طور پر راسخ ہوچکا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ