کیا پاکستان کے اہم فیصلوں میں 23 کروڑ کی اجتماعی دانش سے کوئی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے استعمال کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ آج کے دن ہی 1999ء میں کیا ہوا تھا۔ ایک منتخب اور دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم نے اپنی قومی ایئرلائن پی آئی اے کے سری لنکا سے آنے والے جہاز کو پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر اتارے جانے سے منع کردیا تھا۔ کیونکہ اس میں اپنی ہی فوج کے سربراہ سری لنکا کے دورے سے ملک واپس آرہے تھے۔ جنہیں وزیرا عظم شام 5بجے برطرف کرچکے تھے۔ ان کی جگہ ایک اور آرمی چیف کا تقرر کیا جاچکا تھا۔ کراچی ایئرپورٹ۔ نواب شاہ ایئرپورٹ پر پولیس کی ڈیوٹیاں لگ چکی تھیں۔ اگر زبردستی جہاز اترے تو آرمی چیف کو گرفتار کرلیا جائے۔ آرمی چیف کے اپنے ملک کی سر زمین پر اترنے کا انتظار بھی نہیں کیا جارہا تھا۔ اس وقت یہ امر بھی زیر غور تھا کہ جہاز میں موجود ایندھن کے حساب سے نزدیک ترین ایئرپورٹ بھارت کے تھے۔ اس مسافر جہاز میں صرف آرمی چیف اور ان کا عملہ ہی نہیں تھا۔ دوسرے مسافر بھی تھے۔ ایک اسکول کے طالب علم بھی بڑی تعداد میں تھے۔اب وہی وزیر اعظم چوتھی بار وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے 21اکتوبر کو لندن سے پاکستان آرہے ہیں۔
دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ میں جنگ کے شعلے پھر بھڑک اٹھے ہیں۔حماس کے اچانک کامیاب حملوں نے اسرائیل ہی نہیں دنیا بھرکی انٹیلی جنس کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ بھارت نے جیسے کشمیریوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے اس طرح یہودیوں نے فلسطینیوں کی سر زمین پر قبضہ کرکے 1948سے کتنی فلسطینی نسلوں پر زندگی کی تمام آسانیاں مسدود کی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ سے قراردادیں منظور ہوتی رہتی ہیں۔ ایک ایک کرکے اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں۔ دنیا میں امن کی خاطر ایک جابر کے تسلط کو منوایا جارہا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کی ہے۔ مگر اس وقت پاکستان اپنے اندرونی، اقتصادی، سیاسی حالات کی بنا پر کوئی کردار ادا کرنے کی حیثیت میں نہیں ہے۔
آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ممکن ہے اس وقت تک اسلامی ممالک کی تنظیم او، آئی، سی کا کوئی موقف سامنے آچکا ہو۔ پاکستان کی کبھی عالم اسلام میں ایک مرکزی حیثیت ہوتی تھی۔ فروری 1974 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے شہید شاہ فیصل کی مشاورت سے مسلم سربراہوں کی جو کانفرنس لاہور میں منعقد کی تھی۔ ویسا نمائندہ اجلاس پھر کبھی نہ ہوسکا۔ اس کانفرنس کی تاریخی اہمیت یہ بھی تھی کہ امریکہ اور اس کے حامی بلاک میں مسلمانوں کے اس سیاسی مالی علمی اتحاد سے خوف کی لہریں دوڑ گئی تھیں۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ اس کانفرنس میں شامل ہونے والے مسلم حکمرانوں کو کس طرح سے جسمانی طور پر راستے سے ہٹایا گیا۔ شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو،انور سادات،شیخ مجیب الرحمن، یاسر عرفات، معمر قذافی۔ کیسے کیسے عظیم قائدین، اپنے ہی لوگوں سے قتل کروائے گئے۔ سزائے موت دی گئی۔ سادات،مجیب اپنے ہی فوجیوں سے ہلاک کروائے گئے۔ اسرائیل کی چیرہ دستیاں اسی طرح جاری رہیں۔ مسلم دنیا اپنی طاقت کھوتی رہی۔پھر نائن الیون کا حادثہ کھڑا کرکے مسلمان ملکوں کے خلاف صلیبی جنگ شروع کردی گئی۔ اب اس خطّے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور مسلم کش بھارتی قیادت مودی اور اس کے حامیوں کو دنیا کی طرف سے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ کشمیر کی مسلمہ متنازع حیثیت کو ختم کررہا ہے۔
اس وقت صرف ترک قیادت سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس تصادم کو آگے نہ بڑھنے دے۔ عراق اور شام اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ مصر میں بھی ایک غیر نمائندہ حکومت ہے۔ ملائشیا میں اب مہاتیر نہیں ہے۔ انڈونیشیا بھی اب اسلامی ملکوں کی قیادت کی اہلیت نہیں رکھتا۔
حماس نے اسرائیل پر حملے کیلئے یہ وقت کیوں چُنا ہے۔ تجزیے ہورہے ہیں، مگر اسلامی ملکوں کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے۔ اسرائیل کے سرپرست تو علی الاعلان متحد ہوگئے ہیں۔ کہیں سے بھی یہ تجزیہ سامنے نہیں آرہا ہے کہ حماس کا روڈ میپ کیا ہے۔ اس حملے سے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی جذبے کا تقاضا تو یہی ہےکہ جب جنگ چھڑ چکی ہے تو فلسطینیوں کا ساتھ دیا جائے اور عالمی برادری پر سفارتی دباؤ بڑھایا جائے کہ اسرائیل ایک با اختیار فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ نہ روکے۔ مسلم حکمران بھی اس کیلئے آواز بلند کریں۔
اپنے ملک میں ہم اس وقت صرف مالی طور پر ہی نہیں ، صرف ڈالر کے مقابلے میں ہی نہیں، اخلاقی طور پر، سماجی انداز سے علمی اعتبار سے، ذہانت کے حوالے سے تنزل آفریں پستی میں پہنچ چکے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں میں گفتگو ہورہی ہے کہ 1947 اور اس کے آس پاس اگر چہ پاکستان کے ابتدائی برس تھے۔ مگر ہمارا اقتصادی، سیاسی، عالمی شعور بہت بلند تھا۔ تحمل برداشت کے جذبات مستحکم تھے، مگر بعد کی سیاسی اور فوجی حکومتوں نے ترقی کی بجائے انتشار کا راستہ اختیار کیا۔ ملک کی قیادت پر جاگیردار، سردار، نواب، ٹھیکیدار غالب ہوتے گئے۔ ان کا ساتھ مذہبی سیاسی جماعتیں علماء، خانقاہیں، گدیا ںبھی دیتی رہیں۔ صنعتی ترقی جس رفتار سے ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوسکی۔ عوام کی اکثریت کو خوشحالی نصیب نہ ہوئی۔ دانش، بصیرت، تدبر، تخلیقی صلاحیتوں کو مختلف آئینی اور قانونی تشکیلات سے ختم کیا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ نام نہاد جمہوریت ہے۔ قومی صوبائی اسمبلیاں ہیں لیکن عوام کی اکثریت انہیں اپنا نمائندہ نہیں سمجھتی۔ انتخابی طریقہ کار بھی ایسی ہی ناقص بنیادوں پر ہے۔ قومی سیاسی پارٹیاں بھی جمہوری سیٹ اپ نہیں رکھتی ہیں۔موروثی کمپنیاں بن گئی ہیں۔ اپنے شہری۔ ضلعی۔ صوبائی قومی کنونشن منعقد نہیں کرتی ہیں۔ برسوں سے پارٹی کیلئے قربانیاں دیتے کارکنوں اور عہدیداروں کی ذہانت کو پارٹی کی کامیابی کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک کی اصل طاقت عوام ہیں۔ ان کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ ایسے ملک کا کوئی حال ہوتا ہے نہ مستقبل۔ اس لیے ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے۔ سیاسی رہنماؤں اور مقتدر اداروں کا فرض یہ ہے کہ اجتماعی عوامی دانش کو موقع دیں کہ عوام ملک کے مستقبل کیلئے فیصلہ سازی میں شریک ہوں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات آئین کے تقاضوں کے مطابق منعقد ہوں۔ آزادانہ شفاف اور منصفانہ۔ سب جماعتوں اور ہر بالغ پاکستانی کو اپنی رائے کے استعمال کی آزادی ہو۔ تب ہی پاکستان کی عظمت رفتہ بحال ہوسکتی ہے۔ اور پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر ایک موثر کردار ادا کرنے کے مواقع دستیاب ہوسکتے ہیں۔ ہمارے نگراں وزیراعظم نے سیاسی سربراہوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں کیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ