گزشتہ برس جب نریندر مودی کے ارب پتی فنانسر گوتم اڈانی نے این ڈی ٹی وی نیوز چینل کے شیئرز چور دروازے سے فرنٹ کمپنیوں کی مدد سے خرید لیے تو بھارت میں قوم پرست مذہبی لہر کا مقابلہ کرنے والا یہ آخری چینل بھی نمک در کانِ ِ نمک ہوگیا۔
بھارت بھلے چاند پر پہنچ گیا مگر میڈیا کی آزادی سے متعلق سرکردہ تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی بین الاقوامی درجہ بندی میں بھارت ایک سو اکیاسی ممالک کی فہرست میں بیس پوائنٹس کھو کے اب ایک سو اکسٹھویں درجے تک آن پہنچا ہے۔
بی جے پی کے اتحادی صنعت کار طبقے کی جانب سے میڈیا کے مکمل ٹیک اوور کے نتیجے میں سوشل میڈیا اور رسمی میڈیا کے ذریعے قومی دماغ میں زہر بھرنے کا کام تیز تر ہو گیا ہے۔چنانچہ بی جے پی کے مخالف چوبیس جماعتی اتحاد انڈیا نے چودہ ٹی وی اینکرز کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
اب تک تو مسلمانوں، کرسچنز اور سکھوں کے خلاف نفرت کا کاروبار لوک سبھا سے باہر ہی تھا۔مگر اب یہ تیزاب پارلیممنٹ کے اندر تک پھیل گیا ہے۔ گزشتہ ماہ بی جے پی کے ایک رکنِ پارلیمان رمیش بھدوری نے تقریر کے دوران حزبِ اختلاف بھوجن سماج پارٹی کے رکن احسان علی کو بھڑوا ، آتنک وادی ، ملا اور کٹوا (ختنہ یافتہ ) کے القاب سے نوازا تو اس وقت رمیش بھدوری کے پیچھے بیٹھے دو ارکانِ پارلیمان نے ان زہریلے القابات کا مسکریلا سواگت کیا۔
اسپیکر اوم برلا نے رمیش بھدروی کی رکنیت معطل کرنے کے بجائے بس اتنا کہا کہ آیندہ آپ نے اس طرح کی زبان استعمال کی تو میں سخت کارروائی کروں گا۔ سینئیر پارلیمنٹیرینز کا کہنا ہے کہ لوک سبھا کے فلور پر ایسی زبان انھوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی۔ لوک سبھا کی کارروائی براہ راست دکھائی جاتی ہے۔یعنی کروڑوں گھروں میں رمیش بھدروی کے منہ سے جھڑنے والے پھول گرے ہوں گے اور لاکھوں نے انھیں تالی بجا کے داد بھی دی ہو گی۔
اوپری قیادت کی جانب سے کوڑا کرکٹ اور کیچڑ پھینکنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ نچلی سطح تک پست ذہنیت بٹتی چلی جاتی ہے۔جیسے یو پی کے ایک اسکول کی استانی نے اپنی کلاس کے اکلوتے سات سالہ مسلمان بچے کو اسی کے ہم جماعت بچوں سے باری باری تھپڑ لگوائے۔ استانی کو یقین تھا کہ اگر اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی بھی تو دکھاوے کی ہو گی۔چنانچہ بچے کے والدین نے پرچہ کٹوانے کی پولیس پیش کش کے باوجود معاملے کو یہیں ختم کرنے میں عافیت جانی۔بس اتنا کیا کہ اپنے بچے کو کسی اور اسکول میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک اسکولی بچی دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو نعرہ لگا رہی ہے اور قریب کھڑے والدین اور دیگر خواتین و حضرات خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی اقلیتوں سے متعلق ایک سرکردہ مانیٹرنگ گروپ ہندوتوا واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں نفرت انگیز تقاریر کے دو سو پچپن واقعات ریکارڈ کیے گئے۔یعنی اوسطا روزانہ ڈیڑھ نفرت انگیز وارداتیں۔
رپورٹ میں نفرتی پروپیگنڈے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی طے کردہ تعریف کا حوالہ دیا گیا ہے،یعنی کسی بھی فرد یا گروہ کی نسل، قومیت، رنگ، جنس اور دیگر شناختوں کے خلاف متعصب اور امتیازی زبان کا خلافِ آئین و قانون مسلسل استعمال نفرت انگیزی کے دائرے میں آتا ہے۔
ایسے اسی فیصد نفرتی واقعات ان ریاستوں میں ہو رہے ہیں جن میں بی جے پی کی حکومت ہے یا ان ریاستوں میں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔نفرت کا سب سے زیادہ پرچار مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں دیکھنے میں آیا۔ تقاریر میں مسلمانوں کو بھارت دشمن غیر ملکی سازشی ٹولہ بتاتے ہوئے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ اور تشدد کی حوصلہ افزائی پر زور دیا جا رہا ہے۔
ان تقاریر کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں اور ان کے اثرات کروڑوں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔نفرت انگیزی کے کاروبار میں محض سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ ارکانِ اسمبلی بھی شامل ہیں۔ایک سرکردہ سماجی کارکن اور صحافی تیستا سیتل واد کے بقول نفرت کا پھیلاؤ ریاستی پالیسی ہے اور اس کا مقصد ووٹ بینک کو بڑھاوا دینا اور مخالفین کو کونے میں دھکیلنا ہے۔
اب یہ نفرت بھارت کی سرحدوں سے ابل کے باقی دنیا میں پھیل رہی ہے۔اس سال کے شروع میں برطانوی شہر لیسٹر کی سڑکوں پر پہلی بار ہندو مسلم کشیدگی دیکھی گئی اور اس کے پیچھے وہ گروہ تھے جن کا تعلق آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشوا ہندو پریشد سے تھا۔
مسلمانوں اور کرسچنز کے بعد اب سکھ کمیونٹی بھی نشانے پر ہے،جو سکھ بھی ہندوتوا کے ریاستی بیانیے کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے فورا پاکستانی اور خالصتانی کا خطاب مل جاتا ہے۔اس دائرے میں اب کینیڈا بھی آ گیا ہے جسے مغربی دنیا کا پاکستان قرار دے کر دہشت گردوں کو پالنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔
مودی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر اپنے خلاف منفی ردِ عمل کی اس لیے فکر نہیں کیونکہ طاقتور ممالک بالخصوص امریکا، برطانیہ اور فرانس کو اس وقت دنیا کی پانچویں معیشت کی منڈی اور چین کے خلاف صف بندی میں بھارت کی اشد ضرورت ہے۔
اگر یہ دونوں مجبوریاں نہ ہوتیں تو آج نہ صرف یہ ممالک کینیڈا کے ساتھ کھڑے ہوتے بلکہ انھیں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی، آزادی ِ اظہار کے سکڑاؤ اور خوف و ہراس میں رہنے والی اقلیتوں کا درد بہت زور سے اٹھتا۔بالکل ایسے ہی جیسے چین میں مسلمان اقلیت کی دگرگونی پر مغرب کو ایک عرصے سے نیند نہیں آتی۔
صدر روزویلٹ سے جب کسی نے نکارگوا پر حکمران سموزا خاندان کی آمریت کا ذکر کیا تو روزویلٹ کا جواب تھا بے شک وہ حرام زادے ہیں مگر ہمارے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس