پاکستان تحریکِ انصاف آجکل متعدد مسائل اور متنوع آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ حریف پی ٹی آئی کے مصائب پر خاموش ہیں ۔ جب نون لیگ اور پیپلز پارٹی پر آزمائشوں اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، پی ٹی آئی اور اس کی ساری قیادت نون لیگ اورپی پی پی پرہنس رہی تھی۔
پی ٹی ٹی آئی تقریبا پونے چار سال اقتدار میں رہی۔ اِس دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے نون لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف کو سیاست سے نکال باہر کرنے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈہ اور حربہ استعمال کیا۔
خان صاحب اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے پر اِتراتے رہے۔ وہ بضد رہے کہ میں اِن کرپٹ عناصر اور جماعتوں کے سربراہوں سے ملوں گا نہ مصافحہ کروں گا ۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی ضد اور ہٹ دھرمی سے پوری پی ٹی آئی آج مشکلات کا شکار ہے ۔ مزید مشکل یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اور کوئی سینئر سیاستدان چیئرمین پی ٹی آئی سے مصافحہ اور ملاقات کرنے پر تیار نہیں ہے ۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے دوران جو بویا تھا،آج وہی کاٹ رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کی سیاست اور اندازِ سیاست، دونوں ہی ناکامی اور نااہلی کا شکار بن چکے ہیں۔پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے تکبر اور عاقبت نا اندیشی کے تحت اپنے ساتھیوں اور کارکنان کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مسلسل اکسایا اورمشتعل کیا۔ ایسا کرتے ہوئے کبھی اِس کے سنگین نتائج کی پروا نہ کی ۔ اقتدار سے فارغ کیے جانے کے بعد ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف لہجے میں مزید اضافہ ہو گیا۔
انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو جانور تک کہا اور اس پر کبھی پشیمان اور نادم بھی نہ ہوئے۔ اِسی دوران 9مئی کا سانحہ ہو گیا ۔ پی ٹی آئی کے کئی کارکنان اور لیڈرز اِس کی زد میں آ چکے ہیں۔ کئی توبہ تائب ہو کر پی ٹی آئی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ کئی ایک نے پریس کانفرنسیں کرکے اپنی جان چھڑا لی ہے۔بعض اب تک روپوش ہیں ۔ کئی پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی خود بھی جیل میں ہیں۔
وہ پہلے اٹک جیل میں تھے اور اب انھیں انھی کی درخواست پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پہنچایا جا چکا ہے۔ اس پر بھی مبینہ طور پر انھیں کئی شکائتیں کرتے پایا گیا ہے۔ وہ کبھی سیل کے چھوٹا ہونے کی شکائت کرتے ہیں اور کبھی واک نہ کرنے کی ۔ وہ یہ نہیں جان پا رہے کہ وہ بنی گالہ میں 300کنال کے اپنے محل میں نہیں ہیں۔
انھیں جیل اسلوب کے مطابق اب زندگی گزارنی چاہیے اور ایک بہادر انسان کی طرح صعوبتوں کے دن کاٹنے چاہئیں۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ساتھ کئی نون لیگی لیڈروں نے بھی تو خان صاحب کے پر آزمائش دور میں کئی کئی ماہ جیل میں گزارے تھے ۔
اور اب چند ہفتوں سے گم رہنے کے بعد پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر، عثمان ڈار، بھی گھر پہنچ گئے ہیں۔اور پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے، صداقت عباسی ،بھی سوا ایک مہینے سے لاپتہ رہنے کے بعد اپنے گھر پہنچ گئے ہیں ۔ دونوں کی گھر واپسی آگے پیچھے ہوئی ہے۔ عثمان ڈار نے واپس آتے ہی ایک نجی چینل کو مفصل انٹرویو بھی دیا ہے جس میں انھوں نے بیک وقت 9مئی کے کئی ملبے چیئرمین پی ٹی آئی پر ڈال دیے ہیں ۔
عثمان ڈار نے اِسی انٹرویو میں پی ٹی آئی اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جس نے بھی یہ انٹرویو سنا اور دیکھا ہے ، سبھی حیران ہیں۔ بہت سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عثمان ڈار کی مجبوریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ جن حالات سے گزرے یا گزارے گئے ہیں، ان حالات کا فطری تقاضا یہی ہے کہ مکمل سرنڈر کیا جائے ۔ سو، عثمان ڈار نے ایسا کرکے عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔
البتہ عثمان ڈار کی والدہ محترمہ اپنے بیٹے کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکاری ہیں۔ انھوں نے ایک وڈیو پیغام کے ذریعے کہا ہے کہ میں ابھی تک چیئر مین پی ٹی آئی کی وفادار ہوں ۔ اِس محترم خاتون نے عثمان ڈار کے سیاسی حریف، خواجہ آصف، پر متعدد الزامات بھی عائد کیے ہیں اور خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے ابھی مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ عام انتخابات میں عثمان ڈار کی والدہ محترمہ کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملے گا بھی یا نہیں۔
نون لیگ کے سابق وفاقی وزیر، خواجہ آصف، نے البتہ عثمان ڈار کی والدہ صاحبہ کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے بلکہ یہی کہا ہے کہ وہ میری بڑی بہنوں کی مانند ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا ہے۔ساتھ ہی خواجہ آصف نے تحمل سے کہا ہے کہ میرے خلاف بیانات داغنے سے پہلے عثمان ڈار کے بھائی اور والدہ صاحبہ کو اپنے بیانات میں یکسانی پیدا کرنی چاہیے ۔
یہ بات مگر اپنی جگہ پر درست ہے کہ پی ٹی آئی کے مذکورہ دونوں لیڈروں(عثمان ڈار اور صداقت عباسی) کی گھر واپسی پر ہماری سیاست اور میڈیا کی دنیا میں ایک نئے سرے سے ہلچل مچی ہے ۔
ہمارے کئی نجی ٹی ویوں پر صداقت عباسی کی گھر واپسی اور اپنے گھر والوں سے ان کی ملاقات کے جذباتی اور اشکبار مناظر دکھائے گئے ہیں۔اِن مناظر اور اِن پر کیے گئے تبصروں اور مباحث کے نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اِن نتائج کا کسے زیادہ سیاسی فائدہ ہوگا، اِس بارے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سیاسی و انتخابی و معاشی معاملات حیران کن حد تک آئے روز ایک نیا موڑ مڑ رہے ہیں۔ ڈالر گر رہا ہے۔ اسمگلنگ و ذخیرہ اندوزی رک رہی ہے ۔ یعنی ڈنڈے کی سحر کاری جاری ہے۔رواں ماہ کی 21تاریخ کو نواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد کے حوالے سے بھی (نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کے تناظر میں) ایک نیا موڑ آیا ہے۔
اِسی دوران شہباز شریف نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس بھی کی ہے جس میں دھڑلے سے انھوں نے کہا: صرف سیاستدانوں کا ہی نہیں، سب کا احتساب کیا جانا چاہیے۔ لوگ حیران ہیں کہ چھوٹے میاں صاحب کے سب کا کیا مطلب و مفہوم ہے؟ انھوں نے بے موقع سانحہ کارگل کا بھی ذکر کر دیا ۔ تو کیا شہباز شریف نے اپنے انداز میں نواز شریف کے دیرینہ موقف کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے ؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس