ہرمن ہیسے 1877 میں جرمن قصبے بلیک فارسٹ میں پیدا ہوا۔ ماں باپ کٹر مذہبی تھے۔ ہرمن ہیسے تعلیم مکمل نہیں کر سکا۔ کتابوں کی دکان پر ملازمت کر لی۔ فارغ وقت میں ہم عمر محفلوں سے الگ تھلگ، موٹے شیشوں والا چشمہ ناک پر جمائے نظمیں اور افسانے لکھا کرتا تھا۔ 1946 میں ہرمن ہیسے کو ادب کا نوبل انعام ملا تو عام رائے یہ تھی کہ امریکا نے شکست خوردہ جرمن قوم کی تالیف قلب کا سامان کیا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ہرمن ہیسے انسان کی متلاشی روح میں جذبے اور ضبط کی کشمکش کا رزمیہ گو ہے۔ اس نے اپنے عہد میں دو عالمی جنگوں کے ملبے سے ابدی سچائیوں کا کھوج لگانے کی سعی کی۔ ہرمن ہیسے کی ایک کہانی بھیڑیا محمد سلیم الرحمن نے سویرا کے کسی پرچے کے لیے ترجمہ کی تھی۔ بہت برس بعد نیازمند نے بھی اس کہانی کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کرنے کی جسارت کی۔ فرانس کے پہاڑوں میں شدید سردی کے ایک موسم کی کہانی ہے۔ برف کی دبیز چادر نے روزمرہ زندگی معطل کر رکھی ہے۔ جنگلی درندے تک نقل و حرکت سے معذور ہیں۔ شدید بھوک سے بے چین ایک بھیڑیا قریبی گاؤں میں بھیڑ بکریوں کے باڑے میں جا گھستا ہے۔ گاؤں والے بندوقیں اور کلہاڑیاں اٹھائے اسے مارنے کو لپکتے ہیں۔ ایک طرف گاؤں والوں کا حق دفاع ہے، دوسری طرف بھیڑیے کی جبلی بھوک ہے۔ اس تصادم میں زخمی بھیڑیا سفید برف میں ڈھکے پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے مگر بالآخر مارا جاتا ہے۔ زندگی اور موت کے اس کھیل کی آخری سطر میں ہرمن ہیسے نے فطرت، طاقت اور موت کی حتمی سچائی کو ایک جملے میں سمیٹ کے رکھ دیا۔ ترجمہ مٹی، ریت اور کم تر دھاتوں کے آمیزے سے سونا الگ کرنے جیسا عمل ہے۔ کیسی ہی کوشش کریں، اصل زبان کے کچھ سنہری ذرات مٹھیوں سے نکل جاتے ہیں۔ جملہ دیکھئے۔ شور مچاتے گاؤں والوں میں سے کسی نے برف پوش جنگل کا حسن نہیں دیکھا۔ نہ روشن سطح مرتفع کو، نہ پہاڑ کے اوپر چمکتے چاند کو جس کی مدھم روشنی ان کی بندوقوں کی نالیوں پر، شفاف برف پر اور مردہ بھیڑیے کی دھندلائی ہوئی آنکھوں پر لرز رہی تھی۔ ہرمن ہیسے کی یہ کہانی افغان مہاجرین اور پاکستان کی مخدوش معیشت میں تعامل کی پیچیدگی سے یاد آئی۔
27 ستمبر کو وفاقی ایپکس کمیٹی نے غیر قانونی طور پرپاکستان میں موجود غیر ملکیوں کو حکم دیا کہ 31 اکتوبر تک ملک چھوڑ دیں ورنہ انہیں زبردستی بے دخل کر دیا جائے گا۔ ایسے غیر قانونی تارکین وطن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔ قریب دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنا، حراستی مراکز میں رکھنا یا بے دخل کرنا ایک بڑے انتظامی بحران اور انسانی المیے کا معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں قریب 22 لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر موجود ہیں جنہیں مختلف مواقع پر رجسٹر کیا گیا۔ اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان قبضے کے بعد چھ سے آٹھ لاکھ افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان سے مہاجرین کے معاملے پر نظرثانی کی درخواست کر رہے ہیں۔ ان اداروں کا موقف انسانی بنیادوں پر درست ہو سکتا ہے لیکن پاکستان نے 1951 کے مہاجرین کنونشن یا 1967 کے مہاجرین پروٹوکول پر دستخط نہیں کئے۔ پاکستان قانونی طور پر غیر ملکی مہاجرین کو پناہ دینے کاپابند نہیں۔ دوسری طرف افغان حکومت کے ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد کی نخوت دیکھئے۔ فرماتے ہیں کہ حکومت پاکستان کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔ حضور زمین ہماری، ریاست ہماری اور حکومت ہماری، آپ کے اور ہمارے ملک میں سفارتی تعلقات تک نہیں۔ ہمارے سمیت دنیا کا کوئی ملک آپ کی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتا۔ اہل پاکستان نے گزشتہ نصف صدی سے دسیوں لاکھ افغان بہن بھائیوں کو اپنی زمین پر جگہ دی، اپنی معیشت میں مواقع فراہم کئے، آپ کا حق مقدمہ کیا ہے؟ آپ نے اپنے نظریے کے مطابق اپنے عوام کوغلام بنایا جو آپ کے ظلم و تعدی اور نااہلی سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ آپ کو حکومت کرنے کا شوق ہے تو اپنے عوام کو سنبھالنے کا حوصلہ بھی کیجئے۔ ہمارا ملک شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہمارے روپے کی قیمت آپ کی مہربانیوں کے طفیل بری طرح گری ہے۔ پاکستان میں زیر گردش تمام کرنسی کا ایک تہائی افغانیوں کے پاس ہے جو جب چاہیں بڑی تعداد میں ڈالرز خرید کر پاکستانی روپے کی قدر گرا دیتے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان کو ڈالر کی مسلسل منتقلی ہمارے لیے درد سر ہے۔ پاکستان کو افغان مہاجرین کے ہاتھوں منشیات فروشی، جسم فروشی، انسانی اسمگلنگ، گاڑیوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور منی لانڈرنگ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ موجودہ افغان معیشت پاکستان کے سہارے کھڑی ہے اس لیے افغانستان پاکستان میں عدم استحکام چاہتا ہے تاکہ پاکستان افغانستان میں الجھا رہے۔ افغانستان دنیا بھر میں منشیات فروشی کی شہرت رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2022 کے بعد سے افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 32فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی منڈی میں 80 فیصد افیون افغانستان سے اسمگل کی جاتی ہے۔ ادھر آج کے پاکستان میں 80 فیصد دہشت گردی اور معیشت کی تباہی میں افغان پناہ گزین ملوث ہیں۔ افغانستان کو روزانہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سے آدھی رقم پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔ گندم، چینی اور کھاد جیسی اشیا کی اسمگلنگ کا قصہ الگ ہے۔ کابل پر طالبان قبضے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ افغان سرزمین پر کالعدم ٹی ٹی پی، داعش، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد عناصر موجود ہیں۔ طالبان اپنے مفاد میں ان لوگوں سے پنجہ آزمائی کی ہمت نہیں رکھتے بلکہ ان گروہوں کو ہمسایہ ممالک میں بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ طالبان کا طرز حکومت صرف بچیوں، عورتوں اور غریب عوام پر حکم چلانے تک محدود ہے۔ بہت ہو چکی۔ ہمیں اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے جس زمین پر قبضہ کیا ہے، اس کے معاملات خود سنبھالیں۔ پاکستان نے افغان طالبان کے ذوق پارسائی کی قیمت ادا کرنے کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا۔ آپ کے بھیڑیے کی بھوک اپنی جگہ، ہمیں اپنے پچیس کروڑ عوام کی معاشی،سیاسی اور تمدنی ضروریات دیکھنا ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ