آج کل میڈیا پر اور اخباروں میں بھی بے معنی گفتگو سے عاجز ہو کر میں نوکری میں اپنے دکھ دینے والےواقعات پہ نظر ڈالتی اور آج کے حالات سے تقابل کرتی ہوں توخود ہی شرمسار ہو کر ان باتوں کو تحریر کا روپ دے رہی ہوں کہ آپ بھی گریبان میں منہ ڈال کے شرمسار ہوں کہ ان سارے برسوں میں مع ہر طرح کے رہنما کے نام پر بنے ہوئے سیاست دان ملکی تنزلی میں اس قدر کامیابی سے ملک کو دیوالیہ ہونے کی جانب لے کر آئے اور پھر بھی کبھی نادم نہیں ہوئے۔ اب ذرا دل تھام کر سنئےکہ میں کیا آپ بیتی آج کے حالات کے ساتھ مماثلت کرکےدکھا رہی ہوں۔
مسعود کھدر پوش نےساٹھ کی دہائی میں ہاری رپورٹ پیش کی تھی۔ جس میں زراعت پر ٹیکس لگانے اور بڑے بڑے زمینداروں کی زرعی تقسیم کا کہا گیا۔ اسکندر مرزا سے بھٹو صاحب اور مذہبی رہنما ضیاء الحق نے زرعی ٹیکس سے چشم پوشی کی اور جب ساڑھے بارہ ایکڑ کی تقسیم پر فیصلہ کیا گیا تواپنے ہی مزارعوں سے انگوٹھے لگوا کر زمینیں بدستور وہیں کی وہیں رہیں ۔ چونکہ کہہ دیا گیا تھا کہ چھوٹے کاشتکاروں پر ٹیکس نہیں۔ اس لیے زرعی ٹیکس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔ اب ورلڈ بینک نے تاکید کی ہے۔ شاید اب کہ کچھ ہو۔ یہ شک مجھے ساری عمر کچو کے دیتا رہا اور مزارعے دستخط نہیں انگوٹھا لگاتے رہے۔ غریب اور غریب ہو گیا۔
پاکستان میں ضیاالحق کے زمانے میں بہت سے فوجیوں نے ملازمت کے دوران بخشش کے طور پر ملے مربعوں کو کبھی بیچ کر اور کہیں چھوٹے زمیندار کو بطور کمی کمین شامل کر کے ، اپنے بڑھاپے کو سنوارا۔ ان کی اس تحریک کو آج کے پراپرٹی ٹائیکون نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر غریبوں سے تھوڑے پیسوں میں زمین خرید کر کام کو آگے بڑھاتے ہوئے بہت سےکھیتوں کو ملیامیٹ کر کےہاؤسنگ سوسائٹی فوبیا ایسے پھیلایا کہ بلند بلڈنگیں اور فیکٹریاں چھوٹے قصبوں میں بھی بننے لگیں۔گوجر خان ہو کہ شہدا دکوٹ یا مردان ہر جگہ یہ کاروبار پھیلتا گیا غضب یہ کہ ا س کاروبار کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
اسمگلنگ تو شاید پاکستان، افغانستان اور انڈیا میں ہر حکومت کے دور میں پھیلتے پھیلتے وہ عفریت بن گئی کہ افغانستان میں روسی فوجیوں کی موجودگی میں تین ہزار روپے میں روسی ایئر کنڈیشنر اور مائیکرو ویو خرید کر ہم سب خوش رہے۔ اسی زمانے میں افغانی قالینوں سے لے کر ہر طرح کی اشیاء کی اسمگلنگ چین سے براستہ گلگت اور پھر چل سو چل ٹیلی فونوں کی ہر شکل اسمگل ہو کر سب سے پہلے پاکستان پہنچ جاتی چونکہ کوئی حکومت رشوت کم کرنے کی بجائے اپنے اپنے دورمیں ہر سیاسی سربراہ اور افسر مل کر ٹینک خریدنا ہو کہ موٹر وے بنانی ہو، اپنا حصہ پہلے لیتے، کام بعد میں شروع کرتے۔ ملی بھگت کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کتنے ہی ’’واجد ضیا‘‘ آجائیں۔ ہزاروں فائلیں دیکھیں، کسی مالی معاہدے یا عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی نظر نہیں آئی۔جنت نہ ضیاالحق کے ہاتھ سے گئی اور نہ پرویز مشرف کے، آج کل ریٹائرڈ لوگ کتابیں اپنے نام سے لکھوا کر کبھی معصوم اور کبھی باغی ایماندار دکھائی دینے لگتے ہیں۔پہلے اسقاط حمل دائیوں کا گروہ لاہور ٹیمپل روڈ سے ہر شہر کے گلی محلےمیں یہ کام چوری چھپے کرتا تھا یہ الگ بات کہ تھانے میںچپ رہنے کیلئےرقم پہنچ جاتی تھی۔ یہ کاروبار مختلف صورتیں بنا کر گردوں کے کاروبار اور نقلی دواؤں اور ہر طرح کی کولڈ ڈرنک، مردہ مرغیوں کے ٹکاٹک تک اتنا پھیلا اور لوگ آسوہ حال ہوئے کہ اب تو موٹر مکینک بھی گردہ نکالنے کا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔
بھٹو صاحب نے دبئی چلو فوبیا شروع کیا تھا ۔ہر باورچی، ڈرائیور اور بیکار شخص ریال کمانے جانے لگا۔ فیکٹریوں نے جب ان کی نالائقی دیکھی تو پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش اور انڈیا سے ورکرز منگوانا شروع کر دیئے۔ عورتیں جومیڈ بن کر جاتی تھیں۔ ان کی اپنی کارستانیوں کے باعث، یہ شرح بھی کم ہوتی گئی۔ آج کہا جارہا ہے کہ 50 ہزار انجینئر بیکار پھر رہے ہیں۔ ہم نے اب تک کتابیں رٹ کر ڈگریاں دی ہیں۔ بیرونی ممالک اس لئے، چاہے ڈاکٹر ہو کہ انجینئر ،ان کو نئے سرے سے تربیت دیکر پھر ریگولر کرتے ہیں۔ پاکستان میں دیہات کے نوجوانوں نے یہ سن لیا اور ٹی وی پر دیکھ لیا کہ باہر بڑے عیش ہیں۔ اشتہاروں کو وہ زندگی سمجھنے لگے اور پھر کشتیوں پہ کشتیاں جب ڈوبنے لگیں تو پھر اس طرح ایجنٹوں اور حوالہ کے ذریعہ رقوم بھیجنے کے کاروبار کو پہلے وبا کی طرح پھیلنے دیا۔ یہی حکمت اور پیر فقیری کے بہروپ میں چلتا رہا۔
یہ سارا مرثیہ تو آپ کو بھی یاد ہے اور روز کسی نہ کسی ملاوٹ سے پردہ اٹھنے کے باوجود نہ ٹیکس چوری کرنے والے کم ہوتے ہیں اور نہ ان کو سزا ملتی ہے بلکہ ہر نئے زمانے میں وہی پھر بہروپ بدل کر اسمبلیوں میں آجاتے ہیں۔ 76 برس تک یہ گند گھولنے والا زمانہ چلتا رہا۔ پہلی دفعہ ہے کہ باجوہ اور فیض کے نام برسرمنبر گونجے ہیں۔ غبن، بینکوں کو لوٹنے اور ایجنسیوں کی لوٹ مار کا نام لیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ اگر بلوچستان میں اسمگلنگ بند ہوجائے تو آدھے بلوچستان کے لوگ بھوکے مرجائیں۔ ہم نے خود وہاں کے لوگوں پر روٹی روزی کیلئے یہ راستے کھولے۔ ہم نے خود منشیات کی اسمگلنگ کو بطور کاروبار جنوبی امریکہ کی طرح فروغ دیا۔ سب کچھ لٹاکے اب بھی ہوش میں نہیں آرہے۔ ایک پارٹی کے سربراہ، ذاتی طور پر چار سال سے باہرہیں۔ اب اگر واپس آرہے ہیں تو سو بسم اللہ۔ ایک اور موٹروے بنالینگے، ایک اور جاتی امرا بنالیں گے یا پھر کوئی اور صاحب ایک اور بے نظیر آباد بنالیں گے۔ آج کل تو زیادہ تر سیاسی رہنما، نجی جہازوں کو اس قدر استعمال کررہے ہیں کہ پی آئی اے کا تو کونڈا ہوگیا۔ صبراس پر کہ چاہے الیکشن ہوں کہ نہ ہوں۔دوسری طرف گیس، بجلی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے غریب گھرانے سرسوں کا تیل استعمال کیسے کریں کہ وہ بھی قیمت میں چھلانگیں لگا رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ