سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی دوسری سماعت بھی مکمل ہو گئی۔ یہ سماعت بھی لائیو دکھائی گئی ہے۔ ایک سوال سب کے ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ کیا فیصلہ ہوگا میرے لیے یہ زیادہ اہم نہیں ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل نے وہ کام کر دیا ہے جس کے لیے یہ بنایا گیا تھا۔ اب اگر سپریم کورٹ اس بل کو کالعدم کر بھی دیتی ہے تب بھی ان قانونی اصلاحات کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ بات چل نکلی ہے اب منزل تک ضرور پہنچے گی۔
چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال پر اتفاق رائے بن گیا ہے۔ جو لوگ اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بھی سابقہ چیف جسٹس صاحبان کے ماضی کے اقدامات کا دفاع نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس صاحبان کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال نے آج سپریم کورٹ کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے جو جج صاحبان آج چیف جسٹس کے اختیار کا دفاع کر رہے ہیں۔ شاید کل چیف جسٹس بن کر وہ بھی ان اختیارات کا ویسا استعمال نہ کر سکیں جیسے ماضی میں ہوا ہے۔
بہرحال چیف جسٹس قاضی عیسی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انھوں نے جس طرح اپنے اختیارات کے معاملے کو ہینڈل کیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان کے ساتھی جج ان کے اختیارات کے حق میں بول رہے ہیں جب کہ محترم چیف جسٹس صاحب وہ اپنے اختیارات چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ نہیں یہ اختیارات آپ کے پاس ہونے چاہیے۔ فل کورٹ نے سپریم کورٹ کے اندر کی سیاست کو کافی حد تک ختم کر دیا ہے۔
ویسے تو تحریک انصاف نے اس کیس میں فریق بن کر کوئی نیک نامی نہیں کمائی ہے۔ ایک طرف ان سے سماعت کے دوران بار بار سوال کیا جا رہا ہے کہ آپ نے پارلیمنٹ میں اس قانون کے بارے میں رائے کیوں نہیں دی۔تحریک انصاف کے پاس عدلیہ کے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری اور سزا کے بعد انتخابات سے قبل لیول پلینگ فیلڈ کی بہت بات کر رہی ہے۔ دوسری طرف پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں نواز شریف کے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کو برقرار رکھنے کے لیے کھڑی نظر آرہی ہے۔
ایک طرف مطالبہ کر رہے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت سے سیاسی ناک آؤٹ نہ کیا جائے اور دوسری طرف میاں نوازشریف کا عدالتی ناک آؤٹ برقرار رکھنے کے لیے عدالت میں کھڑے ہیں۔ ورنہ کوئی اور سیاسی جماعت تو پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف عدالت میں نہیں آئی۔ تحریک انصاف کی یہ دو عملی اور عیاری بھی قابل دید ہے۔
بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اب چیف جسٹس کے سو موٹو اختیارات میں توازن پیدا کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے اندر بھی ہموار ہے۔ ماضی کے چیف جسٹس صاحبان نے اس اختیار کو غلط استعمال کیا ہے۔ یہ اختیار اسی تناظر میں دیکھا جاتاہے جیسے ایک وقت میں صدر مملکت کا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار 58 2 Bدیکھا جاتا تھا۔
اسمبلیاں توڑنے کے اختیار کے بھی اس قدر غلط استعمال کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے اگر ملک میں جمہوریت چلانی ہے تو پھر صدر کا اختیار ختم کرنا ہوگا۔
اسی طرح اب یہ بات بھی چل رہی ہے کہ اگر ہم نے اپنے نظام عدل کو سیاست اور مطلق العنایت سے پاک کرنا ہے تو پھر چیف جسٹس کا سو موٹو کا اختیار ختم کرنا ہوگا۔ یہ اختیار چیف جسٹس صاحبان مطلق العنان حکمران بنا دیتا ہے بلکہ ان کے سیاسی عزائم کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ایک ماحول بن رہا ہے کہ نظام عدل کو سوموٹو پر فرد واحد کا اختیار ختم کیے بغیر ٹھیک ہی نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح بنچ بنانے کا اختیار کا بھی اتنا غلط استعمال کیا گیا ہے کہ اب اس اختیار میں توازن پیدا کرنے میں بھی رائے عامہ بہت مضبوط ہو چکی ہے۔ اس کے دفاع کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ آج بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا بنچ بنانے کا اختیار ہی سب سے بڑا سوال بن کر سامنے آرہا ہے۔
سب ہی اس مسئلہ کا حل چاہتے ہیں۔ کوئی بھی چیف جسٹس کو بنچ بنانے کے لامحدود اختیا ردینے کے حق میں نہیں ہے۔ خود چیف جسٹس قاضی عیسی بھی اب یہ اختیار رکھنے کے حق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ ماضی کے چیف جسٹس کے اس اختیار کے غلط استعمال کو عوام ہی نہیں بلکہ قانونی حلقوں نے بھی پسند نہیں کیا ہے۔ ساتھی ججز نے بھی پسند نہیں کیا ہے۔
جہاں تک 184 (3) کا معاملہ ہے۔ یہ بھی دلچسپ ہے۔ اس اختیار کے تحت سپریم کورٹ براہ راست کسی بھی عوامی مفاد کے معاملہ کی سماعت کرتی ہے لیکن اس میں اپیل کا کوئی حق نہیں۔ اسی اختیار کے تحت سپریم کورٹ نے دو وزرا اعظم کو نکالا ہے۔ انھیں نا اہل کیا ہے۔ آج وہ دونوں وزیراعظم عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ جیت چکے ہیں۔
یہ بات مانی جا رہی ہے کہ 184(3)کے تحت کیے گئے غلط فیصلوں کے خلاف جب کوئی اپیل نہیں تو ان غلط فیصلوں کے خلاف کیا کیا جائے۔ سب مان رہے ہیں کہ کم از کم ایک اپیل کا حق ہونا چاہیے۔ قانونی سوال یہی ہے کہ اپیل کا یہ حق ایک قانون کے ذریعے دیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ اپیل کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
اگر آئین میں پہلے یہ اختیار نہیں دیا گیا تو تب آئین بنانے والوں کو کیا اندازہ تھا کہ عوامی مفاد کے لیے دیے گئے اختیار سے عوام کے منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجا جائے گا۔ شاید یہ کسی کے تصور میں بھی نہ ہو۔ آپ ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج رہے ہیں، کسی کے خلاف کوئی فیصلہ دے رہے ہیں اور اس کو اپیل کا حق بھی نہیں دے رہے۔
اس کو انصاف کیسے کہا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اپیل کا حق بھی مل ہی جائے گا۔ شاید آج تحریک انصاف جو اس حق کی مخالفت اس لیے کر رہی ہے کہ ان کے سیاسی مخالف کو اپیل کا حق مل جائے کل یہ حق خود تحریک انصاف کو بھی چاہیے ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس