یقینا قوموں اور قومیتوں کو بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ محض بیانیے کے بل بوتے پر ترقی نہیں کر سکتیں۔ انھیں تعلیم، صحت، اختراع، داخلی تعلقات اور معاشی ترقی کے عملی تصورات بھی درکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست ایک طویل عرصے سے نعروں، اساطیری کہانیوں اور سازش کی تھیوریوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ میڈیا پالیسی تصورات کے حوالے سے سنجیدہ بحث میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ زیادہ تر نظری مباحث اس نکتے پر ہیں کہ کون آرہا ہے اور کون جا رہا ہے؟ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا؟ یا عوام کو لوٹنے یا اقتدار حاصل کرنے کیلئے مختلف حقیقی یا فرضی اسکیمیں کیسے لڑائی جا رہی ہیں؟ وغیرہ۔ اس دانش کو پاکستانی میڈیا میں ہونے والی گفتگو پر منطبق کریں تو انسان یہ ماننے پر مجبور ہوجائے گا کہ میڈیا پر محو کلام افراد اوسط یا چھوٹے دماغ کے مالک ہیں۔ سنجیدہ تصورات تک عوام کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت کم افراد ان دہرائے جانے والے من گھڑت بیانات پر یا تواتر سے لگائے جانے والے بے بنیاد نعروں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق نعرہ ایک ایسا لفظ یا جملہ ہے جسے یاد رکھنا آسان ہوتا ہے اور اسے کوئی سیاسی جماعت یا تشہیری مہم عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ لیکن پاکستانی تو جیسے نعروں کی رو میں بہہ نکلتے ہیں۔ وہ ان کی بابت سادہ سے منطقی سوالات بھی نہیں اٹھا سکتے۔ مثال کے طور پر جب پاکستانی رہنما پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ یا مدینے کی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ اسلام تو گزشتہ 1400 برسوں سے اربوں انسانوں کا عقیدہ رہا ہے ۔ کیا1947 میں ریاست پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے اسلام کو کسی قلعے کی ضرورت نہیں تھی؟
اسی طرح پیغمبر اسلام ۖ یا اسلام کے وقار کے تحفظ کیلئے تشدد کا سہارا لینے والے جتھوں نے کبھی سوچا ہے کہ کیا ان کے افعال واقعی ان کا مقصد پورا کرتے ہیں ؟ کیا دشمن کو نیست و نابود کردیں گے جیسے تواتر سے دہرائے جانے والے جملوں کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے ؟ اس دھمکی کا ہدف امریکی، اسرائیلی یا بھارتی ہوں تو ملک میں خوب داد و تحسین ملتی ہے لیکن اس سے ان طاقتور حکومتوں اور ریاستوں کو کیافرق پڑتا ہے؟
کشمیر پر 1957 کے بعد سے کوئی قرار داد منظور کیوں نہیں ہوئی ؟ اور اگر اس حقیقت کی طرف نظر کریں کہ 1957میں اقوام متحدہ کے اراکین کی تعداد 82 تھی جو آج بڑھ کر 193 ہوچکی ہے ، تو کیا ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ آج بھی ویسی ہی قرار داد منظور ہوسکتی ہے؟ کیا چین کے حوالے سے آئرن برادر کی اصطلاح محض لفاظی نہیں؟ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چین اپنی پالیسیاں اپنے مفادکو دیکھتے ہوئے بناتا ہے ، نہ کہ کسی بھائی چارے کی بنیاد پر۔ دراصل کھوکھلے نعروںکی بنیاد اساطیری تصورات ہیں ۔ ڈکشنری کے مطابق یہ وسیع پیمانے پر مانے جانے والے لیکن جھوٹے تصورات ہوتے ہیں ۔ جن سے ہم نفرت کرتے ہیں ان کے بارے میں ہتک آمیز کہانیاں، اور وہ جنھیں ہم سراہتے ہیں ان کی دیومالائی خوبیوں کی داستانیں پاکستان میں ہمہ وقت زبان زد خاص و عام رہتی ہیں ۔ سوشل میڈیا کی آمد نے اساطیر کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھا دی ہے ۔ ان پر یقین کرنے والے اکثر واٹس ایپ پیغامات یا ٹوئیٹر اور فیس بک سے حاصل کردہ مستند معلومات کا حوالہ دیتے ہیں ۔
تھوڑی سی ریسرچ ، جس کی کم از کم میڈیا اور قومی رہنماؤں کو زحمت کرنی چاہیے ، سے پتا چل جائے گا کہ پاکستان کی تاریخ، خارجہ تعلقات اور معیشت کی بابت ارزاں کردہ کچھ بیانیے اور وضع کردہ کچھ تھیوریاں محض من گھڑت افسانوں کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ لیاقت علی خان کو کبھی بھی 1949 میں سوویت یونین کی طرف سے دعوت نامہ نہیں ملا تھا، اسلئے مسترد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 1966کے تاشقند معاہدے یا 1972 کے شملہ معاہدے میں کوئی خفیہ شقیں نہیں تھیں ۔ امریکیوں نے کبھی وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے بچانے کیلئے بحری بیڑا بھیج رہے ہیں ۔ کسی پاکستانی لیڈر نے کشمیر نہیں بیچا، بس عالمی سطح پر اس تنازع میں اب جان نہیں رہی۔ گوادر کبھی بھی دبئی یا ہانگ کانگ سے بڑی بندرگاہ نہیں بننے جارہا۔
اساطیر ان کہانیوں سے وجود میں آتی ہیں جنھیں سن یا دہرا کر لوگ اپنے حالات کے بارے سکون محسوس کرتے ہیں یا وہ وضاحت کرسکتے ہیں کہ ان کی مشکلات اور ناکامیوں کی وجہ کیا ہے ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے زیادہ تر بیانیوں کی بنیاد سازش کی تھیوریاں ہوتی ہیں۔ 1991میں واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر سٹیو کول نے اسلام آبا دسے پاکستان کے سیاسی کلچر اور مبہم چالبازیوں کے بارے میں لکھا۔ کم و بیش بیس سال بعد، 2010میں نیو یارک ٹائمز کی رپورٹر سبرینا تاورنیز (Sabrina Tavernise) کی رائے میں سازش پاکستان کا قومی کھیل ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تیرہ سال گزرنے کے بعد آج بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں سازش کی تھیوری کی تعریف اس یقین کے طور پر کی گئی کہ اہم تاریخی اور سیاسی واقعات کی وجہ ان دھڑوں کی سازش ہوتی ہے جن کا اس میں مفاد وابستہ ہے ، یا بااثر افراد ان واقعات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ سرکاری پشت پناہی سے پھیلائی گئی فریب کاری ، بشمول پاکستان کے کارناموں کی معرکتہ الآرا داستان اور تاریخ کومسخ کرکے ناکامیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی نے پاکستانیوں کی نفسیات اس نہج پر ڈھال دی ہے کہ اب انھیں قدم قدم پر سازش کے سائے دکھائی دیتے ہیں ۔ سازش نے حقائق کی غیرجانبدارانہ جانچ سے انھیں متنفر کردیا ہے۔ پالیسی سازی میں حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا جاتا۔ چنانچہ متبادل نسخوں کے ذریعے ملک کے بے شمار مسائل کو کم کرنے یا ان سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ناکام رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسائل سازشی مفروضوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
معاشرے کے سازشی رجحان کی وجوہات کا مطالعہ کرنے والے دانشور بتاتے ہیں کہ وہ اکثر مشکلات کو دور کرنے کی خواہش میں جڑے ہوتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ تنہائی اور گروہی سوچ لوگوں کو یہ باور کرا دیتی ہے کہ وہ کسی سازش کا شکار ہیں۔سازشی تھیوری کو فروغ دینے والے سخت سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے قوم پرستانہ بیان بازی سے اپنے حامیوں کو خوش رکھتے ہیں۔ ہم کبھی یہ بحث نہیں سنتے کہ کیوں پاکستان کی اہم فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار دوسرے ممالک کے مقابلے میں تقریبا نصف ہے؟ کیوں پاکستانی باقی دنیا کے مقابلے اوسطا 34 فیصد کم کیلوریز استعمال کرتے ہیں؟یا پاکستان کی کاٹن ٹیکسٹائل کی برآمدات کی قدر کیوں کم ہیں؟ بنگلہ دیش سے بھی کم جبکہ پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک ہے اور بنگلہ دیش نہ ہونے کے برابر کپاس پیدا کرتا ہے لیکن ہم نعرہ بازی اور سازش کی تھیوریوں سے جان چھڑائیں تو ہی ان مشکل سوالات پر غور کرتے ہوئے سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کس طرح حل ہونگے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ