ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تاریخی کارنامہ… تحریر : ذوالفقار احمد چیمہ


اس وقت بلاشبہ اقبال شناسی اور اقبال فہمی کے حوالے سے پورے ملک میں سب سے مستند اور معتبر نام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا ہے، قوم کو ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے ہمارے عظیم محسن ڈاکٹر علامہ اقبال کو اچھی طرح جانا، سمجھا اور پھر ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں سے اور ان کی فکر کی مختلف پرتوں سے یہاں کے خواص اور عوام کو روشناس کرایا۔

ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے اقبالیات پر 27 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی اور جی سی یونیورسٹی لاہور جیسے اداروں میں 35 سال تک نئی نسل کو پڑھایا ہے۔

درجنوں بار بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے، ہندوستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی ان کا بے حد احترام پایا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے اقبال شناس انھیں استاد کا درجہ دیتے ہیں۔

ہندوستان کے معروف ماہرِ اقبال اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر عبدالحق لکھتے ہیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دانائے اقبال ہیں۔

وہ اقبالیاتی ادب کے رازدانوں کے درمیان ایک امتیاز کے مالک ہی نہیں، اقبال کے مقام و پیغام کے نگہدار بھی ہیں اور تفہیمِ اقبال کے رہبرِ فرزانہ کی بلندی اور بزرگی پر بھی فائز ہیں۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال، علامہ کی سوانح عمری زندہ رود مرتب کرتے وقت سب سے زیادہ ڈاکٹر ہاشمی صاحب سے راہنمائی لیتے رہے، مگر کس قدر تشویش کی بات ہے کہ پاکستان میں بہت کم لوگ ان کے مقام اور مرتبے سے واقف ہیں۔ کل اسلام آباد کلب میں خاصے پڑھے لکھے حضرات کے سامنے ان کا نام لیا تو دس میں سے صرف دو ڈاکٹر صاحب سے متعارف نکلے۔

ان کے بعد ایک ایکٹریس کا نام لیا تو دس کے دس اس کے تمام معاشقوں اور موجودہ اور سابقہ شوہروں سے آگاہ تھے۔ یہ حکومتوں اور میڈیا کے طرزِ عمل کا نتیجہ ہے۔ حکومتی درباروں میں صاحبانِ علم ودانش کے بجائے خوشامدیوں کو پذیرائی ملتی ہے اور ٹی وی اسکرینوں کے دروازے ملک کا درد رکھنے والے معمارانِ قوم کے لیے مستقل بند ہیں۔

ہمارے قومی زوال کی ایک بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں اور برقی میڈیا کی غلط ترجیحات بھی ہیں، منی اسکرین پر کرکٹ کے کھلاڑیوں اور فلموں کی رقاصاؤں کو اس طرح رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے ہم نے نئی نسل کو یا کھلاڑی بناناہے یا ڈانسر۔ اگر ہماری ترجیحات درست ہوتیں، ہم نے تعلیم کو اہمیت اور استاد کو عزت دی ہوتی تو آج ہمارے حالات بہت بہتر ہوتے۔

اگر ہمارے برقی میڈیا کے کارپرداز تعلیم اور استاد کی اہمیت سے آگاہ ہوتے تو مختلف چینل انٹرویو کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے علمی اور تحقیقی کارناموں کے پیشِ نظر حکمرانوں کو ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ڈاکٹر صاحب کے گھر جا کر انھیں پیش کرنا چاہیے تھا اور یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی تحریروں کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ علامہ اقبال کی شخصیت اور تخلیقات پر دنیا کے 41 زبانوں میں کتابیں لکھیں جاچکی ہیں اور اتنی ہی زبانوں میں ان کی شاعری کے ترجمے ہوچکے ہیں ڈاکٹر صاحب نے کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد دنیا کی اکتالیس زبانوں میں علامہ اقبال کی نظم ونثر اور ان کے تراجم، تشریحات اور تنقید پر مشتمل پونے چھ ہزار کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں ضروری معلومات پر مبنی مواد کو یکجا کرکے کتابیاتِ اقبال کے نام سے مرتب کردیا ہے۔

اس گرانقدر تحقیقی سرمائے کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ اقبال برائے ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ نے بڑے خوبصورت پیرائے میں چھاپ دیا ہے۔ چند روز قبل اسلامی یونیورسٹی میں ہی پونے دو ہزار صفحات پر مشتمل کتابیاتِ اقبال کے نام سے چھپنے والی اس عظیم تحقیقی کتاب کی تقریبِ رونمائی منعقد کی گئی۔ جس کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے۔

آئی آر ڈی کے ڈائریکٹر حسن آفتاب صاحب نے اظہارِ خیال کے لیے مجھے بھی مدعو کیا، میرے لیے اس تقریب کی سب سے بڑی اہمیت اور دلکشی یہ تھی کہ ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی زیارت کا شرف حاصل ہوجائے گا۔ اسلامی یونیورسٹی پہنچ کر دیکھا تو مقررین میں معروف شاعر جناب افتخار عارف، اکیڈمی آف لیٹرز کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم جیسے جید اسکالر بھی موجود تھے۔

ہال اساتذہ اور طالبات سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ چند طلبا بھی ایک جانب سہمے ہوئے بیٹھے تھے، وہ کالج جو ہر شہر میں مردوں یعنی طلبا کے لیے بنائے گئے تھے وہاں طالبات کا قبضہ ہو چکا ہے اور اب کسی بھی تعلیمی درسگاہ کی تقریب میں نوے فیصد لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کردار اور انکسار کی دولت سے مالا مال ہیں، وہ ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے ہیں جو نام ونمود اور تشہیر سے بے نیاز ہو کر اپنا کام غیرمعمولی لگن اور مشنری جذبے کے ساتھ مکمل کرتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریب میں گلے کی خرابی کے باعث تقریر کرنے سے گریز کیا۔

ویسے بھی وہ تقریر کے نہیں تحقیق کے آدمی ہیں۔ مگر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مقررین نے ڈاکٹر صاحب کو پرجوش خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کے تحقیقی کارناموں کو دل وجان سے سراہا۔ مقررین نے بجا طور پر کتابیاتِ اقبال کو ایک گرانقدر تاریخی دستاویز اور اقبالیات کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کتاب اور صاحبِ کتاب پر بڑی موثر گفتگو کی۔ افتخار عارف صاحب کے حافظے نے بہت متاثر کیا جو پیرانہ سالی میں بھی توانا ہے۔

انھوں نے دیگر مقررین کی تقاریر کے اہم نقاط کے حوالے دیے اور انھیں اپنے نقطہ نظر سے ملا کر بڑی دلپذیر گفتگو کی۔ سامعین نے تمام باتیں بڑی دلچسپی اور جذبے کے ساتھ سنیں اور دو گھنٹے تک جم کر بیٹھے رہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب میرے ذاتی طور پر بھی محسن ہیں، وہ خود اس بات سے آگاہ نہیں تھے اس لیے میں نے اپنی تقریر میں اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ پندرہ سال پہلے میرے گرائیں اور بچپن کے دوست سلیم منصور خالد صاحب نے مجھے ان کی کتاب علامہ اقبال شخصیت اور فکروفن بھیجی۔ اس وقت میں ڈی آئی جی تھا اور گوجرانوالہ جیسی اہم ڈویژن کی کمان کررہا تھا۔

نوکری کی مصروفیات کی وجہ سے میں کتاب پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔ کبھی کبھار ایک آدھ صفحہ پڑھ لیتا۔ پھر ایک روز میری نظریں اس صفحے پر جم گئیں جس میں علامہ اقبال کے سفرِ فلسطین کا ذکر ہے۔

فلسطین میں علامہ صاحب کو ایک اسکول کا بھی دورہ کرایا گیا جہاں طلبا نے فتحِ اندلس کا ڈرامہ پیش کیا۔ آخر میں علامہ صاحب سے بھی کچھ کہنے کی درخواست کی گئی تو انھوں نے فاتحِ اندلس طارق بن زیاد کے بارے میں کہے گئے اپنے تاریخی اشعار سنائے کہ

طارق جو برکنارہ اندلس سفینہ سوخت

گفتند کارِ توبہ نگا ہے خرد خطااست

خندید ودستِ خویش بہ شمشیر بردوگفت

ہر ملک ملکِ ماست بہ ملکِ خرائے ماست

عالمی سطح کے اسکالر سید ابوالحسن علی ندوی (جنھوں نے فکرِ اقبال پر عربی میں کتاب لکھی ہے) کہتے ہیں جب میں کلامِ اقبال پڑھتا ہوں تو خون جوش مارنے لگتا ہے اور رگوں میں بہادری اور شجاعت کی رو دوڑنے لگتی ہے۔ یہ اشعار پڑھ کر میرا حال بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔

اس کے بعد میں کتاب کی جانب زیادہ متوجہ ہوا اور پھر نظروں کے سامنے کتاب کا وہ واقعہ آگیا جس نے دل ودماغ میں تلاطم برپا کردیا۔ یہاں علامہ اقبال کے وہ روح پرور اشعار درج تھے جنھوں نے میری دنیا بدل دی۔ 1919 میں اٹلی نے دوسرے یورپی ممالک کی مدد سے عثمانی سلطنت کے شہر طرابلس پر حملہ کیا جس سے ترکوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔

اس خبر سے برصغیر کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑگئی اور ترک بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بادشاہی مسجد لاہور میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے تمام مسلم راہنما شریک ہوئے اور انھوں نے بڑی پرجوش تقریریں کیں۔

آخر میں علامہ اقبال سے گذارش کی گئی کہ وہ بھی کچھ کہیں۔ انھوں نے اس موقع پر چھوٹی سی نظم پڑھی۔ جس کا تھیم یہ ہے کہ علامہ اقبال آسمانوں کا خیالی سفر کرکے دربارِ رسالت مآب میں پہنچتے ہیں اور وہاں ان کا حضور نبی کریم کے ساتھ مکالمہ ہوتا ہے۔ نبی کریم بلبل باغِ حجاز سے پوچھتے ہیں کہ دنیا سے ہمارے لیے کیا تحفہ لے کر آئے ہو، اس پر اقبال عرض کرتے ہیں

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا لہو اس میں

عینی شاہدوں نے لکھا ہے کہ آخری شعر سننے کے بعد بادشاہی مسجد کے جلسے کے شرکا دھاڑیں مار کر رونے لگے، میری اپنی آنکھیں بھی بڑی دیر تک نمناک رہیں، ان دو نظموں نے مجھے کلامِ اقبال کی طرف اس طرح کھینچا جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اور پھر میں اقبال کی شاعری میں غوطہ زن ہوگیا اور علامہ کے بارے میں درجنوں کتابیں پڑھ ڈالیں اور اس نتیجے تک پہنچا کہ امت کے لیے حوصلے اور امید کا پیغام اگر کہیں ملتا ہے تو وہ کلامِ اقبال ہے اور اب کئی سالوں سے نئی نسل کو فکرِ اقبال(پختہ ایمان، خودداری، جدوجہد نبی کریم سے محبت اور امید جس کے نمایاں پہلو ہیں) سے روشناس کرانے کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب اور سلیم منصور صاحب آپ کا بہت شکریہ اور جزاک اللہ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس