30 ستمبر کو ولادت رسول ﷺکا تہوار منایا جا رہا تھا۔ مسلم تقویم میں یہ دن مسلمانوں کے لئے کسی بھی دوسرے تہوار سے زیادہ جذباتی معنویت رکھتا ہے۔ کوئٹہ سے پچاس میل جنوب میں مستونگ کے مقام پر بھی عید میلاد النبی کا جلوس نعت اور درود کی آوازوں میں آگے بڑھ رہا تھا۔ کل پونے تین لاکھ آبادی کے ضلع مستونگ میں جلوس کے شرکا کی تعداد زیادہ سے زیادہ چند ہزار ہو گی۔ اچانک ایک زوردار دھماکے سے خودکش حملہ آور نے تباہی پھیلا دی۔ ساٹھ پرامن شہری خاک میں لتھڑے، لہو آلود ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے۔ واضح رہے کہ مستونگ کا مغربی حصہ افغانستان کی سرحد سے ملتا ہے۔ عین اسی وقت خیبرپختونخوا کے جنوب مغربی ضلع ہنگومیں نماز جمعہ پر خودکش حملے میں پانچ عبادت گزار شہید ہوئے۔ اس دوران افغانستان سے دراندازی کی کوشش ہوئی جہاں چار پاکستانی جوان شہید اور تین جنگجو مارے گئے۔ حالیہ واقعات کی طرح شہید پاکستانی جوانوں اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کی اموات میں تناسب قابل غور ہے۔ دو روز بعد یکم اکتوبر کومیانوالی میں درجن بھر دہشت گردوں نے پولیس چوکی پر حملہ کیا۔ دو حملہ آور جہنم واصل ہوئے جبکہ ایک ہیڈ کانسٹیبل شہید ہوا۔ خود کش حملہ آوروں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے بتایا گیا ہے۔نگراں وزیر داخلہ اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ حسب توقع جمعیت علمائے اسلام کا ردعمل زیادہ شدید ہے ۔یہ علاقے جمعیت علمائے اسلام کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ چند روز قبل اسی سیاسی جماعت کے متحرک رہنما مولوی حمداللہ ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں سال رواں کے دوران دہشت گردی کے کل واقعات میں نصف سے زائد حملوں میں جمعیت علمائے اسلام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس صورت حال کے کئی زاویے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ 2007، 2009 اور 2015میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نیز فوج کی بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کا عفریت ختم نہیں کیا جا سکا۔ یہ یاد کرنے میں حرج نہیں کہ جب ہماری ریاست دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان سمیت بھرپور کارروائیوں کا اعلان کر رہی تھی، اس وقت بھی ملک میں یہ رائے موجود تھی کہ اندرون ملک موجود دہشت گردوں کے سرپرستوں، حامیوں اور سہولت کاروں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ہماری یہ غلط فہمی تھی کہ افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد طالبان ہماری ریاست کا مضبوط بازو ثابت ہوں گے۔ ہمارے سابق وزیراعظم نے تو قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا تھا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔ ہمارے ایک اعلیٰ ریاستی اہلکار نے کسی سفارتی یا سیاسی مفاد کو مدنظر رکھے بغیر کابل کا دورہ فرمایا اور کابل کے ہوٹل کی چائے کو لذیذ قرار دیا۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں پروجیکٹ عمران کے کامیاب اور ناکام حصوں کا منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے۔عین اس وقت کابل پر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کرنے والے طالبان ہزاروں ایسے افراد کو رہا کر رہے تھے جو پاکستانی ریاست کو دہشت گردی میں مطلوب تھے۔ قوم کے خلاف اس سے بڑا جرم یہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ سے رائے لئےبغیر کم و بیش سات ہزار جنگجو وطن واپس لا کر مختلف علاقوں میں آباد کئے گئے جس کا بنیادی مقصد سابقہ قبائلی علاقوں کو بندوبستی اضلاع میں ضم کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانا تھا۔اطلاعات کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں صرف لاہور میں گرفتار ہونے والے افراد کی بڑی تعداد انہی افغان جنگجوؤں پر مشتمل تھی۔ دوسرے لفظوں میں پروجیکٹ عمران اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث عناصر میں نادیدہ مراسم پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر 2021 کے بعد جو بحران آیا ہے اس کے دیگر اسباب کے علاوہ ایک بنیادی وجہ افغانستان کے ساتھ ایسی سمگلنگ بھی ہے جس نے پاکستان میں غذائی بحران اور مالیاتی خسارے کو مہمیز کیا ہے۔
افغانستان پر قابض طالبان کے رویے سے ثابت ہو ا ہے کہ پاکستان کے وہ وفادار شہری درست رائے رکھتے تھے جو افغان اور پاکستانی طالبان کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے تھے۔ ہم نے اپنی افغان پالیسی کے غیر مدلل دفاع میں مختلف طرح کے جھوٹ بولے ہیں جو دراصل قوم کے خلاف جرائم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کبھی ہم طالبان میں اچھے اور برے کی تمیز کرتے تھے، کبھی ڈرون حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے تھے، کبھی ہمیں شمالی وزیرستان میں کارروائی سے مشرقی محاذ پر دفاعی کمزوری کا اندیشہ تھا، کبھی ہم بلیک واٹر کا منتر پڑھتے تھے، کبھی ہم افغانستان میں مخالف ممالک کے قونصل خانے گنواتے تھے اور کبھی پاکستان میں ہونے والی کارروائی کے پیچھے ’را‘ اور دوسری مخالف ایجنسیوں کا ہاتھ بیان کرتے تھے۔مخالف خفیہ ایجنسیوں کا یہی کام ہوتا ہے۔ ہمیں تو یہ پوچھنا چاہئے تھا کہ ہم نے اس کے تدارک میں کیا کیا؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اندرون ملک موجود انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کو اپنا اثاثہ سمجھ رکھا تھا۔ یہ اثاثے اب ہمارے گلے کا طوق بن رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ بیرونی دنیا ہمارے سیاسی عزم اور ریاستی ہچر مچر سے تنگ آ کر ہم سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ اگست 2021 کے بعد سے افغانستان کی معیشت سکڑ کر تیس فیصد رہ گئی ہے اور نوے فیصد افغان انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ افغان طالبان میں فیصلہ کن حیثیت انتہا پسند گروہ کو حاصل ہے جو اپنے پرانے طور طریقوں کی طرف لوٹ چکا ہے۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ دہشت گردی کے مرکھنے بیل کو سینگوں سے پکڑنا ہے یا حسب معمول ملک کے اندر انتہا پسندی کی نئی فصلیں کاشت کرنا ہے۔ ایک طرف بلوچستان اور پنجاب میں مذہبی اقلیتوں پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف کھلی دہشت گردی پوری طرح سر اٹھا چکی ہے۔ معاشی ترقی کے منصوبے اپنی جگہ لیکن دہشت گردی کا سر کچلے بغیر ہم اپنی معیشت، سیاست اور تمدن کو ترقی کے راستے پر نہیں ڈال سکتے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ