پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے پانامہ میں انھیں نا اہل کرنے والے کرداروں کے احتساب کی بات کی ہے۔ اس ضمن میں ایک تقریر میں انھوں نے کچھ نام بھی لیے ہیں۔ اس تقریر کے بعد پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اس تقریر کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ان کرداروں کا احتساب ہو سکے گا کہ نہیں یہ ایک سوال بن گیا ہے۔
یہ سوال بھی بن گیا ہے کہ کیا نواز شریف کو ان کرداروں کے احتساب کا مطالبہ کرنا بھی چاہیے تھا کہ نہیں۔ کچھ دوستوں کی رائے میں یہ نواز شریف نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔ لیکن کچھ کی رائے میں نواز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے اصولی موقف پر اب بھی قائم ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ میں جنرل ریٹائرڈ باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ ڈال دیا تھا تو پھر آج ان کے احتساب کی بات کیسے کی جا سکتی ہے۔ لہذا احتساب کی بات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف ان کرداروں کے احتساب کے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ نہ تو نواز شریف نے اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹنے کا کوئی اعلان کیا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے اس کی کوئی وضاحت جاری کی گئی ہے۔ لیکن پارٹی کے دیگر ارکان کی گفتگو کی بنا پر رائے بنائی جا رہی ہے۔
بہر حال جہاں تک جنرل باجوہ کو توسیع کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹ دینے کی بات ہے میں سمجھتا ہوں اس معاملہ کو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صحیح ہینڈل نہیں کیا۔ ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جیسے مسلم لیگی ارکان پارلیمانٹ کو میاں نواز شریف نے ووٹ ڈالنے کی ہدایت کی تھی اور یہ ماحول بھی بنایا گیا اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) ووٹ نہ ڈالتی تو یہ توسیع ممکن نہ تھی۔ حالانکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔
جنرل باجوہ کو ان کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل ہی اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنے دستخطوں سے جاری ایک خط کے ذریعے توسیع دے دی تھی۔حالانکہ ابھی ان کی ریٹائر منٹ میں کئی ماہ باقی تھے۔
ویسے تو یہ خط ہی جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے لیے کافی تھاکیونکہ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی ایسے ہی ایک خط سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو توسیع دی تھی۔ اس لیے یہ خط کافی تھا۔ لیکن ایک وکیل نے یہ خط سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جس پر اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔ پہلے یہ تاثر بنا کہ آصف سعید کھوسہ نے سو موٹو لے لیا ہے۔ لیکن پھر واضح کیا گیا درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ درخواست سماعت کے لیے کیوں مقرر کی۔ اس حوالے سے کئی پس پردہ باتیں ہیں لیکن یہ کہانی آج کے کالم کا موضوع نہیں ہے۔ بہر حال آصف سعید کھوسہ کی عدالت میں سماعت نے کھیل بدل دیا۔ ایک دن تو یہ ماحول بھی بن گیا کہ شائد آصف سعید کھوسہ جاتے جاتے جنرل باجوہ کو بھی ساتھ گھر لے جائیں گے۔ لیکن پھر آصف سعید کھوسہ نے ایک درمیان کا راستہ نکال دیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں آرمی چیف کو توسیع دینے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ اس لیے اس بارے میں پارلیمان کو قانون سازی کرنی چاہیے اور قانونی رعایت دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ جب تک قانون سازی نہ ہو جائے جنرل باجوہ کو بطور آرمی چیف کام کرنے کی اجازت دے دی۔ آصف سعید کھوسہ جن کی شہرت وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی تھی جنرل باجوہ کو گھر بھیجنے کی جرات نہ کر سکے۔ مجھے قوی امید ہے کہ آصف سعید کھوسہ کو احساس ہو ا ہوگا کہ وزیر اعظم کو گھر بھیجنا کتنا آسان ہے۔
بہر حال آصف سعید کھوسہ کے اس فیصلے اور چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے آرمی چیف جنرل باجوہ کی توسیع کے خط کے بعد قانون پارلیمان میں پیش ہوا۔ قانون چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت نے پیش کیا۔ قانون کوئی جنرل باجوہ کی توسیع کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ قانون یہ تھا کہ آرمی چیف کو توسیع دینے کا اختیار وزیر اعظم کا ہوگا۔ اگر وزیر اعظم کبھی کسی آرمی چیف کو توسیع دینا چاہیں گے تو اس کا وزیر اعظم کو اختیار ہوگا۔اس قانون کے بننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے ہی جنرل باجوہ کو توسیع دی وہ چاہتے تو نہ دیتے۔
دوسری طرف کوئی بھی جمہوری جماعت اس قانون کی مخالفت کیسے کر سکتی تھی کہ یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہونا چاہیے۔ پاکستان کے آئین وقانون کے تحت یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ اگر ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا تو بننا چاہیے تھا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بہرحال یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہونا چاہیے۔
یہ کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس پر ووٹ دینے سے کوئی جمہوریت کمزور ہوئی یا آئین خراب ہو گیا۔ بلکہ آئین وقانون مضبوط ہوئے۔ لیکن یہ قانون کوئی وزیر اعظم کو ہر حال میں توسیع دینے کا پابند نہیں کرتا۔ توسیع دینا یا نہ دینا وزیر اعظم کی صوابدید ہے۔ اور اس وقت وزیر اعظم چیئرمین پی ٹی آئی تھے۔ لیکن ہم کھاتے نواز شریف اور ن لیگ کے ڈال رہے ہیں۔ اسے پراپیگنڈے کی جنگ کہتے ہیں۔
آپ دیکھیں شہباز شریف کی وزارت عظمی میں سب جانتے ہیں کہ جنرل باجوہ دوسری توسیع لینا چاہتے تھے۔ قانون بھی موجود تھا کہ وزیر اعظم توسیع دے سکتے ہیں۔ لیکن شہباز شریف نے توسیع نہیں دی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس