سابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی کو بالاخر اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ ان کے مقدمات چونکہ اسلام آباد میں زیر سماعت ہیں اس لیے انھیں قانون کے مطابق اسلام آباد کی جیل اڈیالہ منتقل کیا جائے۔
حکومت پہلے انھیں اٹک جیل میں رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن بعد میں صورتحال دلچسپ ہوگئی کیونکہ یہ خبریں بھی آئیں کہ خود ہی عدالت سے درخواست کرنے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل ہونے سے انکار کر دیا۔ وہ بضد ہو گئے کہ وہ اٹک جیل ہی رہنا چاہتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاسے غلطی ہو گئی انھیں اٹک جیل سے منتقلی کی درخواست عدالت میں دائر ہی نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ یہ موقف رکھنا چاہیے تھا کہ اب چونکہ حکومت نے انھیں اٹک جیل میں بند کیا ہے لہذا سیکیورٹی خدشات کی بنا پر انھیں اٹک جیل سے منتقل نہ کیا جائے۔
میری رائے میں کپتان اور ان کی ٹیم نے ان کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست کر کے ایک قانونی غلطی کر دی ہے جس کا خمیازہ انھیں آنے والے دنوں میں شدید انداز میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
خان صاحب پر پورے ملک میں مقدمات درج ہیں۔ بالخصوص نو مئی کے دس مقدمات میں انھیں گناہ گار قرار دے دیا گیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جیل منتقلی درخواست دیکر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے ایک بڑی قانونی غلطی کر دی ہے۔
اس کا انھیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف نے بھی عدالت سے خود کو اڈیالہ سے لاہور کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔ عدالت نے ان کی درخواست منظور کر کے انھیں اڈیالہ سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ لیکن میاں نواز شریف کی صورتحال مختلف تھی۔ ان کے کیس کا ٹرائل مکمل ہو چکا تھا۔ ان پر اور کوئی کیس نہیں تھا۔
اس لیے جب وہ کوٹ لکھپت جیل منتقل ہوئے تو ان کا کسی اور جیل منتقل ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے ان کی درخواست کی منطق سمجھ آتی تھی، وہ قانونی طور پر ایک بہترین حکمت عملی تھی کہ وہ اپنے گھر کی قریب والی جیل میں آجائیں۔ ان سے ملاقات کے لیے ان کے اہل خانہ کو لاہور سے راولپنڈی جانا پڑتا تھا۔ اس لیے لاہور ان کے لیے بہتر تھا۔
تا ہم چیئرمین پی ٹی آئی کی صورتحال مختلف ہے۔ ان کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں۔ ان کا ٹرائل ابھی ہونا ہے۔ نواز شریف پر زیادہ مقدمات نہیں تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی پر سیکڑوں مقدمات ہیں۔ اس لیے جیل میں رکھنے کے حوالے سے دونوں کا موازنہ ممکن ہی نہیں۔ جن دوستوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کو یہ مشورہ دیا کہ وہ نواز شریف کی طرح جیل منتقلی کا مطالبہ کریںوہ حقائق سے نا بلند تھے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو تو یہ موقف لینا چاہیے تھا کہ کسی بھی حالت میں مجھے کسی اور جیل میں منتقل نہ کیا جائے۔ بہر حال اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں تحریک انصاف نے ترانہ بنایا تھا کہ اگلاا سٹاپ اڈیالہ اور آج ان کی اپنی قیادت اڈیالہ پہنچ گئی ہے۔ وہ اپنے سیاسی دشمنوں کو اڈیالہ پہنچاتے پہنچاتے خود ہی اڈیالہ پہنچ گئے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے لیے کھودے گئے کنویں میں آپ خود بھی گر جاتے ہیں۔ جب تحریک انصاف اپنے جلسوں جلوسوں اور ریلیوں میں ترانہ بجا رہی تھی کہ اگلا اسٹاپ اڈیالہ ہے تب کیا انھیں اندازہ تھا کہ ایک دن وہ بھی اڈیالہ جیل میں قید ہوں گے۔
ان کی اگلی منزل بھی اڈیالہ ہوگی۔ یہ پاکستان کی سیاست کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ آپ اپنے مخالف کے بارے میں جو سوچیں گے آپ کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے دشمنی کو اس حد تک رکھنا چاہیے جہاں تک آپ خود بھی برداشت کریں۔
آج چیئرمین پی ٹی آئی کو چاہیے کہ جیل میں یہ Next stop Adiyalaکو بار بار لگا کر سنیں تا کہ انھیں اس ترانے کی اصل روح کا اندازہ ہو سکے۔ ماضی میں اس ترانے کا لطف اور تھا آج اس کی تاثیر یقینی طور پر مختلف ہو گی۔ یہی فرق انھیں بہت کچھ سمجھنے کا موقع دے گا۔
آج جب نیب کا پرانا قانون دوبارہ عمل میں آچکا ہے تو اس کا بھی زیادہ نقصان چیئرمین تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔ ان کے مقدمات پرانے قانون کے تحت ہی چلیں گے۔ انھوں نے نیب ترامیم کو چیلنج تو کر دیا لیکن تب ان کا یہ خیال نہیں تھا کہ ایک دن وہ بھی اڈیالہ میں قید ہوں گے اور نیب کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکے ہوں گے۔
اس دوران صورتحال اس وقت شدید دلچسپ ہو گئی جب وہ خود بھی عدالت سے نئے نیب قانون کے تحت رعایت مانگ رہے تھے۔ ایک طرف انھوں نے نئے نیب قانون کو چیلنج بھی کیا ہوا تھا دوسری طرف نئے نیب قانون کے تحت رعایت بھی مانگ رہے تھے۔
اس لیے اگر چیئرمین پی ٹی آئی نے نئی نیب ترامیم کو چیلنج نہ کیا ہوتا تو آج ان کو بہت فائدہ ہوتا۔ وہ بھی نئے نیب قانون سے فائدہ اٹھاتے۔ لیکن اپنے مخالفین کو پھنسانے کے چکر میں وہ خود بھی پھنس گئے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جیسے جیل منتقلی کی درخواست ایک غلطی تھی ۔ ایسے ہی نیب ترامیم کو چیلنج کرنا بھی ایک غلطی تھی ۔ جس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
قانون اور نظام انصاف کوئی کھیلنے کی چیز نہیں۔ آپ کو عدالت سے اپنے انصاف کے لیے رجوع کرنا چاہیے لیکن جب آپ دوسروں کو پھنسانے کے لیے جاتے ہیں۔ تو آپ کا اپنا بھی نقصان ہو جاتا ہے۔ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ اچھے دنوں کی مستیاں برے دنوں میں مہنگی پڑ جاتی ہیں۔ برے وقت ٹھیک قدم بھی الٹا ہو جاتا ہے۔ آپ کو سمجھ نہیں آتی آپ کیا کریں۔
اسے کہتے ہیں ہر تدبیر الٹا پڑ جانا۔ آپ اٹک جیل میں ٹرائل روکتے روکتے اور کئی ٹرائل میں پھنس گئے ہیں۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی حریفوں کو ہرانے کے لیے نظام انصاف کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑنی چاہیے۔ عدالتوں میں سیاسی لڑائی کا خود کو بھی نقصان ہو جاتا ہے، آج یہی ہو رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس