بھارت نے حال ہی میں چندریان مشن کے تحت جس ربوٹک گاڑی کو چاند کے قطب جنوبی کے پاس کامیابی کے ساتھ اتارا، اس کا نام بھارت کے خلائی مشن کے خالق وکرم سارا بائی کے نام پر وکرم رکھا گیا ہے۔ گجرات کے صنعت کار اورجین مذہب سے تعلق رکھنے والے اس گھرانے کا کشمیر کے ساتھ ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاں 1945 میں وکرم سارا بائی نے کا سمک شعاعوں پر اپنی تحقیق کشمیر میں مکمل کی، وہیں ان کی ہمشیرہ مردولا سارابائی کوکشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد اور اس وقت اس جدو جہد کے سرخیل شیخ محمد عبداللہ کی حمایت کرنے پر ان گنت سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ 1931میں عبدالقدیر خان کے بعد شاید وہ پہلی غیر کشمیری شخصیت رہی ہونگی، جن کو کشمیریوں کی جدو جہد کی حمایت کرنے کی وجہ سے جیل جانا پڑاہو۔ ایک امیر گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے ناطے وکرم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہر سال کشمیر میں چھٹیاں منانے آتے تھے۔ 1943میں وہ کئی ماہ تک کشمیر کے پہاڑوں اور مرغزاروں میں گھومتے رہے۔ وہ ان دنوں کا سمک شعاعوں پر تحقیق کر رہے تھے اور ایسی جگہ کے متلاشی تھے جہاں یہ شعاعیں شدت کے ساتھ موجود ہوں۔ کپواڑہ، بانڈی پورہ، بارہ مولہ، اننت ناگ وغیرہ کے پہاڑوں کی چوٹیوں کی خاک چھاننے کے بعد ان کو یہ شعاعیں مقررہ شدت کے ساتھ گلمرگ کے اپھروٹ کے مقام پر 13 ہزار فٹ کی بلندی پر مل گئیں۔ یہیں پر انہوں نے تجربات کرکے اپنی ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کیا۔ لندن واپسی پر وہ اپنے دوستوں اور گھر والوں کو بتاتے تھے کہ اس تحقیق میں کشمیر نے ان کی جو مدد کی ہے، و ہ اس کے بدلے اس خطے کو کچھ لوٹانا چاہتے ہیں۔ 1955میں انہوں نے گلمرگ کے مقام پر ایک سائنسی لیبارٹری کا سنگ بنیا د رکھا۔ یہ دنیا کی واحد ایسی لیبارٹری ہے جو اس قدر بلندی پر واقع ہے۔ اس لیبارٹری کے علاوہ انکا بڑا تحفہ اپنی ہمشیرہ مردولا سارابائی کو کشمیر کے ساتھ متعارف کروانے کا ہے جنہوں نے بعد میں کشمیر کی سیاسی جدو جہد میں اہم رول ادا کیا۔ ان کی زندگی کشمیریوں کیلئے ایثار و قربانی کی ایک مثال ہے۔ اگر وہ چاہتیں تو 1947کے بعد جواہر لال نہرو کی کابینہ میں اہم عہدہ حاصل کرسکتی تھیں۔وہ 1946 میں کانگریس پارٹی کی جنرل سیکرٹری اور ورکنگ کمیٹی کی رکن بنائی گئی تھیں۔ مگر ان کا اوڑھنا بچھونا کشمیر بن چکا تھا۔ وہ کانگریس کی اہم کارکن تھیں۔ 1936میں کانگریس نے راجواڑوں میں پرجا منڈل یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے تحت کئی برسوں کے بعد مردولا سارا بائی کو جموں و کشمیر کا انچارج بنا کر بھیجا گیا۔ پھر اپنے بھائی کی تحقیق کے دوران مدد کرنے کیلئے بھی کشمیر میں رک گئی تھیں۔ مارچ 1968کو دہلی سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ ہما کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 1953تک کشمیر میں اس پرجا منڈل کی انچارج رہیں۔ 9اگست 1953کو جب شیخ محمد عبداللہ کو وزارت سے برطرف اور پھر نظربند کیا گیا تو مردولا بھی معتوب ہوگئیں۔ ان کا کشمیر میں رہنے کا پرمٹ اور پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا۔ اس دوران ان کو کانگریس سے بے دخل کرکے شیخ عبداللہ کی حمایت کرنے پر تہاڑ جیل میں قید کر لیا گیا۔ انہی دنوں عبداللہ کے خلاف حضرت بل سرینگر میں کسی پولیس افسر کی ہلاکت کا الزام لگاکر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ اس مقدمہ کیلئے پاکستانی حکومت شیخ عبداللہ کے دفاع کیلئے کسی بین الاقوامی نامی گرامی وکیل کی خدمات لینے کیلئے کمر بستہ تھی۔ بھارت نے عندیہ دیا تھا کہ وہ کسی غیر ملکی وکیل کو یہ مقدمہ لڑنے کی اجازت نہیں دیگا۔ بقول مصنف اور ماہر قانون اے جی نورانی، مردولا سارا بائی نے ان سے بمبئی میں رابط کرکے ان کو شیخ عبداللہ کا کیس لڑنے کی ترغیب دی۔ اسطرح نورانی صاحب پہلی بار کشمیر کی سیاست سے متعارف ہوئے اور انہوں نے جموں اسپیشل جیل میں شیخ عبداللہ سے بطور ان کے وکیل کے ملاقات کی۔ اس کے بعد تو انہوں نے ابھی تک کشمیر پر تحقیقی مقالوں اور کتابوں کی گویا ایک لڑی سی پرو دی ہے۔ یعنی نورانی صاحب کی کشمیر پر تحقیق بھی سارابائی خاندان کی ہی مرہون منت ہے۔ مردولا سارابائی ایک سال تک دہلی کی تہاڑ جیل میں قید رہیں ۔ اس انٹرویومیں اپنی گرفتاری کی روداد سناتے ہوئے وہ بتا رہی تھیںکہ جب انہوں نے بنیادی حقوق کا حوالہ دیکر سپریم کورٹ میں اپنی گرفتاری کوچیلنج کیا تو چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ چونکہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان متنازعہ مسئلہ ہے، اس لئے کشمیر کے سلسلے میں بنیادی حقوق کا سوال ہی نہیں اٹھتا ۔1967میں انکو رہا کر دیا گیا۔ اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے کشمیری عوا م کو بدگمان کردیا ہے۔ مراعات صرف کشمیری ہندوؤں کیلئے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے کچھ بھی نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم و جبر کی فضا کو بدلنا ہوگا۔ کشمیر ایک مریض کی طرح ہے۔ پہلے اس کا مرض دور کیا جائے، پھر اس سے اسکی رائے پوچھی جائے۔ ان کا موقف تھا کہ کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔ پاکستان کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس کو کشمیر سے بے تعلق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب مسئلہ اقوام متحدہ کی میز پر ہو اور حد بندی لائن کھنچی گئی ہو تو کیسے پاکستان کو اس مسئلہ سے الگ کیا جاسکتا ہے؟ جب ان سے پوچھا گیا کہ کشمیر کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی قسمت بھی جڑ گئی ہے تو انہوں نے اس استدلال کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہندو اور ہندوستان کا مسلمان بطور یرغمال نہیں ہیں۔ یہ نظریہ ہی غلط ہے۔ 1975میں شیخ عبداللہ کے اندرا گاندھی کے ساتھ کئے گئے ایکارڈ سے قبل ہی یعنی 1974میں ان کا انتقال ہوگیاتھا۔ ان کے بھائی وکرم سارا بھائی سائنس کے علاوہ سنسکرت کے اسکالر، فوٹوگرافر، فنون لطیفہ (شاعری موسیقی اور رقص) کے دلدادہ تھے۔ مشہور ڈانسر ملکا سارابائی ان کی صاحبزادی ہے۔ ان کا پورا خاندان جدوجہد آزادی میں شامل تھا اور وہ خود مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے۔ان کے سیاست میں آنے کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ مہاتما گاندھی احمد آباد آئے ہوئے تھے اور اپنے کسی کارکن جس کا نام بھی سارابائی تھا، کے ہاں ان کو جانا تھا۔ وکرم اور مردولا کے والد امبا لال سارابائی کو چونکہ شہر میں کافی لوگ جانتے تھے، انہوں نے ان کو غلطی سے ان کے گھر پہنچا دیا ۔ اب گاندھی جیسا لیڈر دہلیز پر ہو تو ان کی پذیرائی تو بنتی ہی ہے۔ امبا لال نے ان کو گھر پر ٹھہرایا اور ان کے کارکن سارا بائی کو وہیں بلاکر لائے۔ تعلق ایسا بنا کہ جب بھی وہ اب احمد آباد آتے تو سیدھے سارابائی کے مہمان خانہ میں ہی ٹھہرتے۔ ان کے علاوہ یہ دیگر کانگریسی لیڈروں کا بھی ڈیرا بن گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور، سائنسدان سی وی رمن وغیرہ کیلئے بھی۔ احمدآباد میں ان کا گھر ایک ٹھکانہ بن گیا تھا۔ وکرم سارابھائی کو مئی 1966 میں اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا ۔ وہیں انہوں نے بھارت کے خلائی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔ بھارت کے سابق صدر اور سائنس دان اے پی جے عبدالکلام ان کی ہی دریافت تھے۔ وکرم سارابھائی31 دسمبر 1971 کو 52 سال کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔ امریتا شاہ نے اپنی کتاب ”وکرم سارا بھائی – ایک زندگی” میں وکرم کی موت کے بارے میں ”فول پلے” کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وکرم سارا بھائی کی قریبی ساتھی کملا چودھری کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ”وکرم نے مجھے بتایا تھا کہ امریکی اور روسی دونوں انہیں دیکھ رہے ہیں۔”
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز