آزادی بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر وقت کاتقاضا ہے۔ یوم آزادی اللہ کا شکر بجا لانے، غوروخوض کرنے اوراپنے محاسبہ کا دِن ہے۔ جو ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر شاید بحیثیت قوم ہم غوروفکر نہیں کرتے اور اپنے عمل اور رویوں میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی پرعزم قیادت اور علامہ اقبال کی فِکر روشن نے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار اور متحرک کیا،جس کے نتیجے میں عظیم الشان تحریک پاکستان منظم اور برپا ہوئی۔ قیام پاکستان قائد اعظم کی کرشمہ سازقیادت کاکردار ہے پاکستان، مِلت اسلامیہ کی آزادی اور اسلام نشا ثانیہ کی طرف اولین قدم تھا۔ لیکن افسوس کہ 76سال گزرنے کے باوجود مقاصد حاصل نہ کئے جا سکے۔ قدرتی وسائل، انسانی وسائل اور بہترین جغرافیائی محل وقوع، ایٹمی صلاحیت اورذرخیز زمین کے باوجودپاکستان بڑے بحرانوں سے دوچار ہے۔ قومی سلامتی کے لئے خطرات اپنی جگہ، بدترین اقتصادی صورتحال اورآئینی وسیاسی بحران سامنے کھڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فسطائیت اور دہشت گردی کا بڑھتا ہواعفریت قومی قیادت کے لئے بڑے چیلنجز ہیں۔ اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی زوال خطرات کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ قوم عزم نو،ایمانی جذبوں کے ساتھ خوشحال، جدید ا ور روشن پاکستان بنانے کیلئے کمربستہ ہو۔
انوار الحق کاکڑکا بطور نگران عبوری وزیراعظم تقرر خوش آئند ہے۔ اسی طرح وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اتفاق بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔مگر نگران وزیراعظم کا نام اچانک کہاں سے برآمد ہوا اور اس پر سرعت کے ساتھ کیسے اتفاق ہوگیا۔ یہ کھلا راز ہے۔ 8ویں نگران وزیراعظم کے تقرر کا ایک ہی فارمولا ہے کہ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے، ماننے اوربھگتنے کی ذمہ دارکسی اور پر ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ 1970 کے بعد سے سول ملٹری تعلقات میں کشمکش اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کی خواہش، پاکستان کے سیاسی عمل کیلئے مسلسل دردسر اور ناسور بن گئی ہے۔ 2002، 2008، 2013، 2018 کے انتخابات کے بعدآنے والی چار اسمبلیوں نے اپنی پانچ سالہ مدت ضرور پوری کی ہے لیکن ملک سیاسی، اقتصادی اور انتظامی طور پرمستحکم ہو سکا اور نہ حالات بہتر ہوئے۔ 2023 کے انتخابات جہاں الیکشن کمیشن کیلئے بڑے چیلنجز لے کر آئے ہیں وہیں پر نگران حکومت کیلئے بھی یہ چیلنج کم نہیں۔عوامی اعتماد کی بحالی، آئینی مدت میں انتخابات کا انعقاد بروقت اور شفاف انتخابات اورمردم شماری جیسے ایشوز کو آئین کی پامالی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ضرورت ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام جماعتوں کی مشترکہ کانفرنس بلائے اور صاف شفاف غیرجانبدارانہ انتخابات کے لئے اقدامات کرے۔
ملک میں جمہوری پارلیمانی اقدارکے استحکام، آئین کی پاسداری، عدل وانصاف کے قیام اور عوامی اعتماد کی بحالی کے ذریعے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔اس کیلئے جہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہو گی، وہیں پر اقتدار اور کرسی کے کھیل سے جان چھڑانا ہو گی۔اس کے بغیر نہ ملک میں جمہوریت پنپے گی اور نہ آئینی وقانون کی پابندی اور نہ اس کے نتیجے میں نگران حکومت الیکشن کمیشن کی ساکھ اور وقار بحال ہو گا۔سیاسی جمہوری پارلیمانی پارٹیاں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، انتخابات کے لئے عبوری حکومت،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کام میں مداخلت نہ کی جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز بروقت، شفاف اورغیرجانبدارانہ انتخابات پر اتفاق کرلیں۔ 2013، 2018 کی طرح 2023 کے عام انتخابات متنازع بننے سے بچایا جائے۔ یہ ملک کی سلامتی، وحدت اور اقتصادی نظام کے لئے اور زیادہ تباہ کن ہو گا۔ انتخابات میں تاخیر سراسر غیرآئینی، غیر جمہوری اور آمرانہ ہے۔ سیاسی جمہوری آئینی اور پارلیمانی اقدار میں اصولوں اور ضابطوں کی ہی پاسداری ہوتی ہے۔کسی ایک معاملہ میں بھی آئین اور قانون کوپامال کیا جائے تو اس کے دیرپا منفی اثرات پوری قوم کے وجود پر پڑتے ہیں۔ غیرآئینی اورغیرجمہوری روش سے قوم کو دھوکہ نہ دیا جائے۔ اتحادی حکومت نے رخصت ہوتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے ا جلاس میں جیسے مردم شماری تنازع پر اعتراض ختم کرنے کی بجائے،عاجلانہ فیصلے کئے اور انتخابات میں تاخیر اورالتوا کا کھیل کھیلا۔ ضرورت ہے کہ عبوری حکومت انتخابات کرائے اور مردم شماری کے نتائج پر تنازعات اور اعتراضات پر ادارے اپنا کام کریں، متنازع مردم شماری کے ذریعے انتخابات کے التوا کا کھیل نہ کھیلا جائے۔ یہ کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں۔2023 کے انتخابات متنازع ہوئے تو اس کے نتائج خدانخواستہ مارشل لا کی صورت میں برآمدہونگے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہو گئی، جمہوریت، پارلیمانی نظام اورآئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں، وفاقی حکومت کے علم میں تھا کہ مردم شماری کی بروقت تکمیل سے اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر بروقت انتخابات کرائے جا سکیں گے لیکن بدنیتی ا ور سیاسی انجینئرنگ کے لئے مردم شماری کے نتائج کی نوٹیفکیشن کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا تاکہ آئینی ابہام پیدا کر کے انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیا جا سکے۔ آئین کی روح یہ ہے کہ جمہوریت، عوام کے انتخابی حق کو اولیت ملنی چاہئے۔ انتخابات 2023 کومتنازع نہ بنایا جائے، آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان 24 کروڑ عوام کو جمہوری حق سے محروم نہ کرے۔
آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے دو ہی راستے ہیں، اولین یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان دباسے آزاد ہو کر آئینی مدت میں بروقت انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے تنازع سے نکلیں، اس مرحلہ پر آئینی مشوروں حکومتی بدنیتی اور ٹکرا کی جمہوریت، انتخابات، آئین کو لاحق خطرات سے بچاکیلئے تمام ججوں پر مشتمل فل بنچ بنائیں اور بروقت انتخابات کیلئے آئین کی تشریح کا آئینی کردار ادا کریں اور ملک وقوم کو بحرانوں سے نکالیں۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات