آجکل بلھے شاہ کے سالانہ عرس کی تقریبات جاری ہیں۔بلھے شاہ ایک ایسا انسان دوست صوفی ہے جسے ہم صرف عرس کے دنوں میں ہی یاد نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اس کی سوچ ہماری رہنما رہتی ہے۔ آفاقی سوچ کا حامل اسی مٹی میں کھیل کود کر بڑا ہوا، ان ہی مدرسوں سے لکھنا پڑھنا آغاز کیا۔ چھ سال کی عمر میں اُچ گیلانیاں سے پانڈوکی آنے والے نے اپنے وقت کے مروجہ ظاہری علوم حاصل کرلئے تو تشنگی نے بھاری بھر کم علمیت پر سوال اٹھا دیا تو ظاہر اور باطن کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔من میں آفاقی سچائیوں کے علم کا ٹھاٹھیں مارتا دریا اظہار کو بے چین تھا اسلئے زبان پر بے ساختہ ایسے لفظ آنے لگے جن پر فتوے عائد کئے جا سکتے تھے مگر بات بڑھنے سے پہلے شاہ عنایت کی مریدی عطا ہو گئی۔جن کی صحبت نے بلھے شاہ کو اپنی شخصیت کے ہر جوہر کو چمکانے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ ملاوٹ کا زہر نکالنے کا عمل شروع ہوا۔ پھر ایک دن بلھے میں صرف لطافت کا اجالا رہ گیا۔ہر طرف آئینے نکل آئے۔ الہامی پیغامات بہت واضح طور پر سمجھ آنے لگے۔ کائنات کی نبض پر ہاتھ رکھا تو احساس میں ایک وجود کی دھڑکن جاگی، آنکھیں کھول کر دیکھا تو ہر سو ایک ہی شبیہہ ابھری۔ اس سے آگے کچھ اور جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔عشق اور فہم کی آخری ڈگری عطا ہو چکی تھی۔بلھے نے اپنے احساس، وجدان اور فہم کو عام کرنے کا رستہ چنا۔ اس نے شروع میں ہی اعلان کیا کہ جس طرح میں بلھا یعنی بھولا ہوا ہوں اسی طرح ہر انسان ذات کے مسائل اور عقائد کے تنازعات میں الجھ کر اصل کو بھولا ہوا ہے، خود کو تلاشنے اور حیات کا مقصد پہچاننے کیلئے کسی جوہری استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔یہی علم آرائیں کو معتبر کرتا ہے۔ بلھے شاہ کا پورا سفر قدرت کی زمین پر انسان کی قائم کردہ تقسیم اور تفریق کی ناجائز حد بندیاں ختم کرنے کی جدوجہد سے بھرا ہوا ہے۔وہ عرض گزاری کرتا ہے، کبھی جلالی لب و لہجہ اختیار کرتا ہے۔ کبھی مشفق استاد کی طرح عمل کے چار دنوں کی افادیت سمجھاتا ہے اور کبھی دکھاوے کی پریت سے جانور کے پہرے کو معتبر گردانتا ہے۔آدم سے شروع ہونے والے سلسلے کو بنیاد بنا کر ذات پات کی نفی کرتا ہے، کیہ جاناں میں کون، کی طویل داستان میں خیروشر کی کئی کہانیاں اور نظریے زیربحث لا کر پردے کے پیچھے متحرک قوت کی منشا پہچاننے پر اکساتا ہے۔ فکر اور احساس کے بلیک بورڈ پر علامتی شکلیں بنا کر سمجھاتا ہے۔ الف سے آغاز کرکے نقطہ پر بات ختم کرتا ہے۔نقطہ نتیجہ ہے۔جس تک رسائی کیلئےآنکھ، دل اور فکر پر پڑے وہ تمام پردے اتار پھینکنے کی ترغیب دیتا ہے جن کی وجہ سے انسان مغالطوں کا شکار ہے۔خود سے بھی جدا ہے اور زمانے سے بھی بچھڑا ہوا ہے۔بُکل کے چور کو پہچاننے اور اس کی بات سننے کا مشورہ سب سے اہم ہے۔ وہم اور یقین اکٹھے نہیں چل سکتے۔بلھے شاہ کی حیات انسان کو تسبیح کا موتی بنانے میں گزر گئی۔1 ایک کا ہندسہ،ا، الف اور. نقطہ بلھے کے صوفیانہ نظام کے برج ہیں۔جن پر وہ اپنا پورا فلسفیانہ نظام استوار کرتا ہے۔اُسے یار نے ایک ایسا نقطہ پڑھایا جس میں پوری کائنات سمائی ہوئی ہے وہ اس سے الگ نہیں ہونا چاہتا، اُسے الف میں نجات دکھائی دیتی ہے۔جو رانجھا اُسے مطلوب ہے اُس کا وصل لوکائی سے جڑت کے بعد نصیب ہوتا ہے۔مفادات کے تانوں بانوں میں جکڑے لوگ بلھے کو جھٹلانے کے درپے ہوگئے اور اسے ویران جھگی میں رہنے پر مجبور کر دیا، آج وہ جھگی دنیا بھر کے عاشقوں، صوفیوں اور اہل درد کی پر رونق پناہ گاہ ہے۔ہر سال کی طرح اس بار بھی قصور شہر میں خادم کھوکھر اور چوہدری منظور احمد کی سجائی بلھے شاہ کانفرنس، بلھے شاہ کی آفاقی قدروں کی امین محسوس ہوئی۔کھوج گڑھ کی خاموش فضا میں اقبال قیصر ایک عرصے سے بلھے شاہ کے نام پر ڈھول پیٹ رہا تھا اب میلہ لگنا شروع ہو گیا ہے۔خلقت نے کانوں میں دبائی روئی نکال پھینکی ہے اور یہی باعث اطمینان ہے۔ اگر آج ہم اپنے نصاب میں بلھے شاہ جیسے دھرتی کے عظیم صوفیوں کے افکار شامل کر لیں تو ہماری سوچ میں رچی ٹھیکیداری اور رویوں میں بسی نفرت ملیامیٹ ہو جائے۔ہم بھی اُجلے ہو جائیں اور ہماری تقدیر اور تعارف بھی۔نئی نسل کو اس آفاقی کلام کے معنی تلاش کرنے کا فریضہ سونپنے کی ضرورت ہے۔یقیناً وہ نفرت اور تقسیم کی آگ کا باب بند کردیں گے۔بے شک بلھے شاہ نے جس ٹوٹ پھوٹ کے سماج میں بھٹکتے انسانی ہیولے کو وقار کی خلعت عنایت کر کے سرفراز کیا وہ برصغیر کے پھیلے صحن میں موجود کائنات کا ہر فرد تھا، آج بلھے کا مزار ہماری میراث بن چکا ہے کیا ہی اچھا ہو ہم اس کے فلسفے کو اپنا کر دن بدن بگڑتے بدلتے معاشرے میں بے توقیر ہوتے فرد کو سنبھالنےمیں کردار ادا کریں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ