’’شہر چاروں طرف ایک دیوار کے حصار میں تھا۔ وہ ایک ایسی دیوار تھی جس کے پار جانے کا راستہ کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سب لوگوں کا اس پر کامل یقین تھا کہ اس شہر کے اس طرف جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کوئی انسان دیوار کے پار نہیں جاسکتا۔ لوگوں نے دیوار کے اس طرف اکثر پرچھائیوں کو حرکت کرتے دیکھا ہے اور مختلف قسم کی گرجدار آوازیں سنیں۔ ان کا یقین تھا کہ دیوار کے اس طرف بھوت پریت بستے ہیں اور ان کی حفاظت کیلئے اس دیوار کا قائم رہنا ضروری تھا۔ اگر کوئی اس دیوار کے پار گیا تو اس شہر کیلئے تباہی کا پیغام لائے گا۔اور دیوار کے پار جانے والے کی سزا تھی ،سزائے موت۔‘‘
(افسانہ :دیوار کے پیچھے۔افسانہ نگار:دانش داغ۔کتاب:منتخب بلوچی کہانیاں(1947تا حال…) انتخاب و ترجمہ :فضل بلوچ۔ ناشر:اکادمی ادبیات پاکستان۔ اسلام آباد)
……
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر ملنے اور ایک دوسرے کی زندگی کے گزرتے لمحوں پر بات کرنے کا دن۔ ہے تو یہ چھٹی کا دن۔ لیکن ہرخاندان کیلئے بہت اہم ہے کہ اس ایک دن وہ اپنے روزانہ کے مصروف ترین معمول سے کچھ فارغ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حالات ہر روز پہلے سے ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے۔ کا مصرع گوادر سے واہگہ تک ہر محلے،ہر شہر پر صادق آرہا ہے۔ ایک کروڑ عیش کررہے ہیں۔ کروڑوں کی گاڑی اربوں کے بنگلوں میں کسی فکر کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ 22 کروڑ کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب بجلی کے بلوں میں کرنٹ آگیا ہے۔ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ یہ پیغمبری وقت ہے۔ اس وقت ایک دوسرے کا ہاتھ تھامئے۔ اپنے مسئلے اپنے طور پر حل کرنے کا سوچیں۔ حوصلہ ہار جانے والوں کو حوصلہ ملے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا سب سے قیمتی تحفہ زندگی خود ختم کرنے کا نہیں سوچیں گے۔ اب جو حکمران ہیں چاہے وہ وفاق میں ہیںیا صوبوں میں، وہ آپ کو جواب دہ نہیں ہیں۔ آپ نے انہیں منتخب کرکے نہیں بھیجا ہے۔ جنہوں نے ان کو بنایا ہے۔ وہ ان کو جواب دینے کے رودار ہیں۔ ان پس پردہ قوتوں کو اگر آپ کے رنج و آلام، آپ کے معاشی مصائب سے کوئی ہمدردی ہوتی تو آج ہم یہ دن ہی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ اس لئے آپ کا آپس میں مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔
الائی کے پہاڑی لوگوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ ایک دوسرے کی حفاظت خود مل جل کر ہی کی جاسکتی ہے۔ کسی وفاق کی کسی ادارے کی مداخلت کارگر نہیں ہوسکتی بلکہ مسئلے کے حل میں تاخیر کا موجب ہوسکتی ہے۔ الائی کے ان ’’ڈولی ماہرین‘‘ کو پوری قوم خراج تحسین پیش کررہی ہے۔ پہاڑی لوگ برسوں سے ان ’ڈولیوں‘ کے ذریعے پہاڑ اور دریا عبور کررہے ہیں۔ کتنی خوشی ہوئی سن کر کہ یہاں بچے بچیاں اسکول جانے کیلئے یہ خطرناک ہوائی سفر روزانہ کرتے ہیں۔
……
اب ہمارا ’پاکستان میں کیا پڑھا لکھا جارہا ہے‘ کا پروجیکٹ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو ہندکو کے اوراق اور جیتے جاگتے انسانوں سے گزر کر بلوچی اور براہوی کی صدیوں پرانی داستانوں، کہانیوں، رزمیہ نظموں، گیتوں میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ دونوں زبانیں ادبیات عالیہ سے مالا مال ہیں۔ بنجر پہاڑوں، سنگلاخ راستوں، غیرملکی حملہ آوروں کے مظالم، رومانی سانحوں، قبائلی جنگوں، اب مرکز اور صوبے کی کشاکش، لاپتہ نوجوانوں کے قصّے بڑی ادبی مہارت سے لکھے جا رہے ہیں۔ بلوچی ادب کے بارے میں کوئی استفسار ہو تو ہم پناہ بلوچ کی پناہ ہی حاصل کرتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت رہی ہو یا فوجی حکومت بالواسطہ اور بلاواسطہ۔ پناہ بلوچ ہی رہنمائی کرتے ہیں۔ کتنی ہی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ بھی اس سلسلے میں بہت تعاون کرتی ہے۔ پاکستان کی ساری قومی زبانوں کے ہر صوبائی دارُالحکومت میں ایسے ادارے موجود ہیں لیکن بلوچی اکیڈمی کی خدمات ان سب پر حاوی ہیں۔ وہ گرامر لغت کے حوالے سے بڑی ضخیم کتابیں پیش کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال ہی بلوچی تاریخ، رسوم و رواج، قبائلی معلومات، افسانے، شاعری کے انتخاب بھی شائع کرتے رہتے ہیں۔ لوگ اپنے طور پر بہت کام کر رہے ہیں۔ لورا لائی جیسے دور افتادہ علاقے میں خورشید افروز صاحب نے بلوچستان کے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، اساتذہ کے بارے میں ’’مشاہیر بلوچستان‘‘ کے عنوان سے سلسلہ شرع کر رکھا ہے۔ کئی کئی سو صفحات پر اب تک آٹھ جلدیں آ چکی ہیں۔ فصیح اقبال بھی یاد آتے ہیں۔ ’زمانہ‘۔ بلوچستان ٹائمز، زمانہ بلوچی، ایک دور میں نہ صرف پاکستان بلکہ بحرین، مسقط اور جہاں جہاں بلوچی مصروف کار ہوتے تھے۔ وہاں یہ اخبار ہاتھوں میں نظر آتے تھے۔ اختر بلوچ یاد آرہے ہیں۔ نواب میر احمد خان سابق گورنر بلوچستان کے پریس سیکرٹری بھی رہے۔ امداد نظامی نے پوری عمر بلوچستان کے نام کر دی۔ کامل القادری کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ یہ اُردو کے بیٹے تھے۔ مگر انہوں نے بلوچی ادب پر کام اُردو سے زیادہ کیا۔ محمد حسین عنقا بھی یادوں کے افق پر جھلملارہے ہیں۔ گل خان نصیر ایک باوقار شخصیت، ایک متانت۔ بہت عظیم شاعری عطا شاد کیا بے مثال۔ طرحدار شاعر۔ بہت جلدی دنیا سے چلے گئے۔ مختصر زندگی میںبہت ضرب الامثال اشعار دے گئے۔
مجھ شاخ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے
بلوچستان آنا جانا 1969 سے ہورہا ہے۔ اپنے نظریات کیلئے، جبر و استبداد کی مزاحمت میں برسوں جیلیں کاٹنے والے خان عبدالصمد اچکزئی سے نیاز حاصل رہا۔ شہید نواب محمد اکبر بگٹی،طاہر محمد خان، ہاشم غلزئی، غوث بخش بزنجو، سب ہی لائق تکریم۔ یہ سب شعر و ادب کے بھی دلدادہ رہے ہیں۔ بلوچستان ایک Land of Promise ہے۔ اس کو ابھی دریافت ہونا ہے۔ اس کی رعنائیاں، اس کی جہات، اس کے طلسمات، اس کے نوادرات، بلوچستان کے محروم مظلوم عوام کے منتظر ہیں۔ اس کے دشت، ریگ زار،کاریز، کوہ مردار، ساحل، سمندر سب اتنے رومان پرور ہیں کہ قافیے ردیفیں خود اترتی ہیں۔ ریت خود نظمیں لکھتی ہے۔ ہم ذکر کریں گے اکیسویں صدی کے بلوچی، براہوی شاعروں کا۔ افسانہ نگاروں کا۔ ناول نویسوں کا۔ آغا گل کی جرأتوں کا۔ اس وقت کے بلوچستان کے عوام کے سب سے مقبول شاعر مبارک قاضی کا۔ نوجوان کہیں بھی ہوں۔ تربت، کوئٹہ، نوشکی، گوادر مبارک قاضی کو سننے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔ مزاحمت بھی ہے۔ رندی بھی۔ نئے استعارے بھی۔
پھول پرندے بادل خوشبو کچھ بھی نہیں
کچھ بھی نہیں سیلاب نہ آنسو کچھ بھی نہیں
جس کا جو بھی جی چاہے قانون وہی
نہ پیمانہ ،کوئی ترازو کچھ بھی نہیں
بشکریہ روزنامہ جنگ