ہم چاند کب تلک دوربین سے دیکھیں گے ؟ …تحریر : وسعت اللہ خان


سب جانتے ہیں کہ امریکا اور چین کے بعد جاپان تیسری بڑی اقتصادی طاقت ہے اور اس کا خلائی پروگرام بھی اسی تناسب سے ہے۔مگر گزشتہ برس نومبر میں چاند پر اترنے کی پہلی جاپانی کوشش ناکام ہو گئی۔

گزشتہ ماہ اس مقصد کے لیے تیار کیا جانے والا ایک طاقتور راکٹ بھی آزمائش کے دوران پھٹ گیا۔ اگلے ہفتے جاپان مون سنائپر کے نام سے ایک اور خلائی مشین چاند کی جانب روانہ کرے گا۔

روس کا خلائی پروگرام امریکا سے بھی پرانا ہے۔ چار اکتوبر انیس سو ستاون کو سوویت یونین نے پہلا مصنوعی سیارہ سپوتنک خلا میں بھیج کر امریکا کو چیلنج کیا۔ اپریل انیس سو اکسٹھ میں پہلے سوویت انسان یوری گگارین نے ستائیس ہزار کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کے گرد چکر لگا کے امریکی خلائی ادارے ناسا کو چکرا دیا۔
صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ ساٹھ کا عشرہ ختم ہونے سے پہلے امریکا چاند پر انسان اتار دے گا اور سولہ جولائی انیس سو انہتر کو نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر پہلے انسانی قدم نے یہ دعوی سچ کر دکھایا۔اس کے بعد سوویت یونین نے سویوز خلائی اسٹیشن خلا میں بھیجا۔امریکا نے جوابا اسکائی لیب خلا میں بھیجی۔ دونوں ممالک نے دوسرے ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کا کاروبار بھی شروع کیا۔اور پھر چین بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔

گزشتہ بیس برس کے دوران چاند پر جو تین مشنز اتارے گئے۔ وہ تینوں چینی تھے۔روس نے سینتالیس برس کے وقفے سے گزرے بیس اگست کو لونا پچیس مشن چاند کے مشکل ترین قطبِ جنوبی میں اتارنے کی ناکام کوشش کی۔تین روز بعد ( تئیس اگست ) بھارت پہلا ملک بن گیا جس نے چاند کے جنوبی کرے میں کامیاب لینڈنگ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔

بھارتی خلائی پروگرام کی اس اعتبار سے بھی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ کامیابیاں بہت کم بجٹ میں حاصل کی گئیں۔مثلا چاند پر اترنے والے چندریان تھری مشن پر چھ ارب روپے لاگت آئی۔یہ رقم بالی وڈ کی تین بلاک بسٹر ہندی فلموں کے بجٹ کے برابر ہے اور ناسا کے اسی طرح کے خلائی مشنز کی لاگت کا صرف بیس فیصد بنتی ہے۔بھارت کا خلائی بجٹ کل قومی آمدنی کے محض صفر اعشاریہ 33 فیصد کے برابر ہے یعنی ایک فیصد کا بھی ایک تہائی۔

بھارت کا اگلا ہدف خلا میں اسپیس اسٹیشن بھیجنا اور چاند پر انسانی مشن اتارنا ہے۔

بھارت کا خلائی پروگرام پاکستان کے خلائی پروگرام کے ایک برس بعد ( انیس سو باسٹھ ) شروع ہوا۔مگر اکسٹھ برس سے اس پروگرام کو آگے بڑھانا ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا۔اس کے ساتھ ساتھ پچاس کی دہائی میں پنڈت نہرو کے سائنسی ترقی کے ویژن کے تحت بھارت کے اہم شہروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( آئی آئی ٹی ) قائم ہوئے۔

ان میں داخلے کا معیار کسی بھی اے گریڈ مغربی یونیورسٹی میں داخلے کے معیار کے برابر رکھا گیا۔چنانچہ ان اداروں سے وہ کریم نکلی جس نے بھارت کو پچھلی تین دہائیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید تربیت یافتہ افرادی قوت کی مسلسل رسد کو یقینی بنایا۔اور کل کے یہ طلبا آج بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں جدید سائنس کے میدان میں کلیدی صف میں ہیں۔

اس افرادی قوت نے بھارت کے خلائی ادارے اسرو کو بھی مالامال رکھا۔نتیجہ یہ ہے کہ انیس سو پچھتر میں سوویت یونین کی مدد سے پہلا مصنوعی سیارہ آریا بھٹ خلا میں بھیجا گیا۔انیس سو چوراسی میں کیپٹن راکیش شرما نے سوویت خلائی اسٹیشن سویوز میں کئی ماہ گذارے۔ پچھلے بیس برس میں بھارت مختلف ممالک کے مصنوعی سیارے اپنے راکٹوں کے ذریعے خلا میں بھیجنے کی صنعت میں ایک کلیدی کھلاڑی ہے۔

اب تک وہ چونتیس ممالک کے چار سو سترہ سیارے خلا میں لانچ کر چکا ہے۔خود بھارت نے اپنے لیے جو مصنوعی سیارے لانچ کیے ان میں سے چودہ فوجی مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔

دو ہزار تیرہ میں مریخ کی جانب منگل یان کے نام سے ایک کامیاب مشن بھیجا گیا۔چندریان سیریز کے اب تک تین مشنز چاند کی جانب بھیجے گئے۔ان میں سے دو ہزار آٹھ کا پہلا اور دو ہزار انیس کا دوسرا مشن ناکام ہوا مگر تئیس اگست کو چندریان تھری چاند کے مشکل ترین علاقے میں لینڈنگ میں کامیاب ہو گیا۔اس مشن کی کامیابی کے پیچھے نصف کوشش بھارت کی خواتین خلائی سائنس دانوں کی ہے۔

پاکستان نے اپنا خلائی پروگرام انیس سو اکسٹھ میں امریکی ادارے ناسا کی مدد سے شروع کیا اور اس میں صدر ایوب ِخان کے مشیرِ سائنس ڈاکٹر عبدالسلام نے بنیادی کردار ادا کیا۔وہ انیس سو سڑسٹھ تک پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کے منتظم رہے۔اس دوران ایک سمجھوتے کے تحت پاکستان کے خلائی ماہرین کی تربیت ناسا کے تحت ہوئی۔

اپنے قیام کے دوسرے ہی برس جون انیس سو باسٹھ میں سپارکو نے پہلا خلائی تحقیقی راکٹ کراچی کے قریب سونمیانی کے ساحل سے چھوڑا۔ یوں پاکستان ان گنے چنے اس وقت دس ممالک کے کلب میں شامل ہو گیا جو خلا میں لانچنگ کی اہلیت رکھتے تھے۔

رہبر راکٹ سیریز انیس سو بہتر تک فعال رہی۔ پھر فنڈز کی قلت آڑے آنے لگی۔انیس سو چوہتر میں بھارت نے جب پہلا جوہری دھماکا کیا تو ایٹمی پروگرام اور میزائل لانچنگ پروجیکٹ کی تیز رفتار ترقی ریاستی ترجیحات میں اوپر آ گئے۔ راکٹ ٹیکنالوجی میں ترقی کا رخ دفاعی ضروریات کی جانب مڑتا چلا گیا۔

ضیا دور میں سپارکو کو تحقیق و تخلیق کی مد میں بہتر بجٹ ملنا شروع ہوا۔چین سے خلائی ٹیکنالوجی میں تعاون شروع ہوا۔ انیس سو نوے میں شنجیانگ کے خلائی مرکز سے بدر اول نامی مصنوعی سیارہ لانچ ہوا۔دو ہزار چار میں پاک سیٹ لانچنگ سیریز پر کام شروع ہوا۔

انیس سو ننانوے میں سرکار نے جوہری تجربات کی کامیابی کے جوش میں اعلان کر ڈالا کہ پاکستان اگلے تین برس میں اس قابل ہو جائے گا کہ اپنے مصنوعی سیارے خود لانچ کر سکے۔ چوبیس برس گذر گئے اور یہ دعوی عملی جامہ نہ پہن سکا۔اس دوران دو ہزار اٹھارہ میں چین کی مدد سے ریموٹ سینسنگ میں مدد کے لیے دو سیارے لانچ ہوئے۔

سن دو ہزار سے سپارکو نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے تحت کام کر رہا ہے۔اس عرصے میں فوج کی انجینئرنگ کور سے تعلق رکھنے والے چار اعلی افسر یکے بعد دیگرے سپارکو کی سربراہی کر چکے ہیں۔

دنیا بدل چکی ہے۔پاکستان کے تین اطراف ایڈوانس خلائی پروگرام سے لیس طاقتیں ہیں۔خلائی ٹیکنالوجی میں روز افزوں تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جو انتہائی تربیت یافتہ افرادی قوت درکار ہے۔اس کی کھپت اندرونِ ملک نہ ہونے کے سبب نوجوان ٹیلنٹ کا ہدف بیرونِ ملک نوکری ہے۔مگر خلائی دنیا میں داخلے کے لیے پاکستان کا ویژن دو ہزار چالیس منصوبہ بہرحال اپنی جگہ قائم ہے۔

فی زمانہ عالمی خلائی دوڑ میں نجی شعبہ بھی برابر کا شریک ہے مگر پاکستان میں خلائی سائنس اور متعلقہ ادارے ابھی تک روائیتی بیورو کریٹک چنگل میں ہیں۔ارادے ہمیشہ کی طرح بلند ہیں مگر عمل کب ٹیک آف کرے گا ؟ اس بابت یقین سے کچھ کہنا اپنی پیش گویانہ شہرت کو داؤ پر لگانے جیسا ہے۔اللہ مالک ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس