دیار خواب میں طویل رات اور خاک آلود آنکھیں… تحریر : وجاہت مسعود


کچھ روز گزرے، اگست کی ایک حبس آلود شام تھی۔ شہر کی گہماگہمی سے دور بیٹھے دو عمر رسیدہ اور تھکے ہوئے جمہور پسند سپاہی اپنے سفر کے پیچ و خم کا تبادلہ کر رہے تھے۔ شیکسپیئر کی تمثیل کنگ لیئر کے آخری ایکٹ کا وہ حصہ تو آپ کو یاد ہو گا جہاں گلوسسٹر کا بیٹا ایڈگر اسے کنگ لیئر کی شکست اور گرفتاری کی خبر دیتا ہے۔ گلوسسٹر فرار ہونے کی بجائے موت کو بہتر قرار دیتا ہے No farther, sir; a man may rot even here۔ اس پر کم عمر ایڈگر کا جواب ناکامی کو ناگزیر جانتے ہوئے بھی فرد انسانی کی ناقابل تسخیر مزاحمت کا آفاقی استعارہ بن چکا ہے۔ Ripeness is all۔ بس دریا کے منہ زور پاٹ میں ڈوبتے ابھرتے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کی سی کیفیت تھی۔ صدر عارف علوی، پرنسپل سیکرٹری وقار احمد اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ میں مجادلے کو کوئی ذکر نہیں ہوا۔ بٹگرام کے قریب الائی سے قریب 900 فٹ کی بلندی پر ایک رسی سے معلق بچوں کی خوش قسمت بازیابی کی خبر ابھی نہیں آئی تھی۔ البتہ ملحقہ گاؤں حجرہ طاؤس میں کوئی نصف صدی قبل ایک مقامی سردار کی مہمان نوازی کا تذکرہ رہا۔ بھارت کے خلائی جہاز چندریان کے چاند پر اترنے کے تناظر میں اپنے ملک کی سیاست اور معیشت کا زائچہ نکالا گیا۔ قوموں کی تعمیر واقعات اور حادثات سے مرتب نہیں ہوتی۔ اس کے لیے علم، تاریخ اور اجتماعی حرکیات کی اس بصیرت کی ضرورت پیش آتی ہے جو اپنی زمین سے جڑے سیاست دان کو عشروں کی ریاضت کے بعد نصیب ہوتی ہے۔

14 فروری 2017میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اعلی فوجی افسروں کو سٹیون آئی ولکنسن کی کتاب آرمی اینڈ نیشن پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ایک ہفتے بعد فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس خبر کی تردید کر دی تھی۔ طالب علم تردید کی بجائے تسلیم کو ترجیح دیتا ہے۔ سو یہ کتاب جھاڑ پونچھ کر نکالی۔ پہلے ہی صفحے پر پنڈت نہرو کے ایک خط کا ذکر تھا جو انہوں نے 12 ستمبر 1946 کو متحدہ ہندوستان کے عبوری وزیر خارجہ کی حیثیت سے فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل آکن لیک کے نام لکھا تھا۔ نہرو کا کہنا تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستانی فوج میں مارشل ریس کا نوآبادیاتی تصور ختم کر کے تمام علاقوں کو فوج میں نمائندگی دی جائے گی۔ تب فروری 1946 میں جہازیوں کی بغاوت ہو چکی تھی اور اگست میں کلکتہ کے فسادات رونما ہوئے تھے۔ نہرو مگر اپنے سوچے سمجھے لائحہ عمل پر ڈٹے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص گروہوں اور علاقائی شناخت کی حامل فوج مستقبل کے جمہوری بندوبست کے لیے خطرہ ثابت ہو گی۔ تاریخ نے نہرو کی بصیرت پر صاد کیا۔ اٹھارہ مہینے کی ایمرجنسی کے سوا بھارت میں جمہوری تسلسل پر سات دہائیاں گزر چکی ہیں۔ چار نسلوں نے اچھے برے حالات میں ووٹ کے ذریعے حکومت بنانے اور مسترد کرنے کی ایسی روایت قائم کی ہے کہ جملہ کمزوریوں کے باوجود بھارت ایک مستحکم جمہوریت کہلاتا ہے۔

14جون 1948کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے بھی یہی ارشاد فرمایا تھا لیکن کسی کو گوش سماعت نہیں تھا۔ قوم کی تعمیر کا ایک زاویہ نو آبادیاتی تعلیم کو ایک آزاد مملکت کے سانچے میں ڈھالنا تھا۔ یہ ذمہ داری مولانا ابوالکلام آزاد کے سپرد ہوئی جنہوں نے گیارہ برس تک وزیر تعلیم کی حیثیت سے ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی کہ اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے 2017میں بھارت کے اعلی تعلیمی اداروں کے نام گنوائے تھے۔

برطانوی ہند کی 560کے قریب نیم خودمختار ریاستوں کو آزاد بھارت میں ضم کرنے کا بیڑا ولبھ بھائی پٹیل نے اٹھایا۔ کہیں مذاکرات کیے، کہیں استصواب اور کہیں سیدھی زور آوری۔ اصول تو پنڈت نہرو نے دسمبر 1946میں دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں بیان کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک آزاد قومی ریاست میں کسی شہری کو دوسرے شہری کی رعایا سمجھنے کا تصور بھی ناقابل قبول ہے۔ اگر ناگوار نہ ہو تو خارجہ پالیسی کا زاویہ بھی دیکھ لیجئے۔ سرد جنگ کے دوران دونوں بڑی طاقتوں سے غیر جانب دار خارجہ پالیسی کے نام پر قابل قبول تعلقات قائم کر کے بھارت نے خود کو عالمی رسہ کشی سے دور رکھا۔ حالانکہ نہرو ذہنی طور پر امریکا سے تعلق کو ترجیح دیتے تھے۔

اب ان شعبوں میں اپنی کارکردگی دیکھئے۔ روئیداد خان بفضل خدا حیات ہیں اور ہماری تاریخ کے شناور ہیں۔ 2001 میں روئیداد خان نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جنرل شیر علی خان پٹودی کا سیاسی قوتوں پر بالادستی کا نظریہ بیان کیا تھا۔ اس کے دو حصے تھے۔ فوج کا عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کم از کم رکھتے ہوئے ایک کرشماتی تاثر قائم رکھا جائے اور دوسرے یہ کہ سیاسی قوتوں کو تقسیم در تقسیم کے ذریعے مسلسل کمزور کیا جائے۔ مشرقی پاکستان میں یہ فارمولا ناکام ہو گیا۔ فوجی قوت سے سیاسی بحران حل کرنے کے دعوے دار چیف آف جنرل اسٹاف گل حسن نے آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر اے آر صدیقی کو بلا کر حکم دیا۔ جاؤ اور قوم کو اس دھچکے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرو۔ کچھ بھی کہہ دو، یہ سوچنا تمہارا کام ہے۔ کسی ملک کو اپنی فوج سے ان رکاوٹوں کے باوجود اس سے زیادہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے جو ہم نے کر دیا ہے۔ (اصل الفاط کسی قدر ناشائستہ تھے) بٹگرام کا حادثہ اپنے حجم میں غیرمعمولی نہیں تھا لیکن اسکے نتیجے میں دراصل جنرل پٹودی کی رائے درست ثابت ہوئی ہے۔ سبق یہ ہے کہ اگر مسیحا کا مجسمہ باوردی اور بندوق بردار دکھایا جائیگا تو عوام کی توقعات بھی غیرحقیقت پسند ہوں گی۔ یہ تو آٹھ شہریوں کی جان کا معاملہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ انتخابات گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پوشیدہ ہیں۔ معیشت کی قرقی کا عمل جاری ہے اور مستزاد یہ کہ سیاسی قوتیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ جمہوری آواز شکست کھا چکی ہے۔ کیا ہم اپنی آنکھیں کسی تازہ اور حیات افزا آبشار سے دھونے پر تیار ہیں۔

سروں پہ ڈال رہے ہیں دیار خواب کی خاک

زمیں سے اپنی محبت عجیب ہے کہ نہیں

بشکریہ روزنامہ جنگ