لندن میں شہباز شریف سے ملاقات … تحریر : مزمل سہروردی


لندن میں آجکل سیاست عروج پر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی تقریباً دو ماہ کے بعد لندن واپس پہنچ گئے ہیں۔ اقتدار نگران حکومت کے حوالے کر کے میاں شہباز شریف بھی لندن پہنچ گئے ہیں۔ اتفاق سے میں بھی لندن میں ہوں۔

لندن میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، میں نے میاں شہباز شریف سے ملاقات کی کوشش کی جو کامیاب ہو گئی۔ لندن پہنچنے کے پہلے د و دن تو میاں شہباز شریف ، میاں نواز شریف کے پاس ہی رہے۔ دونوں بھائیوں کے درمیان کئی کئی گھنٹوں کی طویل مشاورت ہوئی ہے۔ شنید یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اگلی حکمت عملی ان ملاقاتوں میں تفصیل سے طے ہوئی ہے۔

میاں شہباز شریف ے ملاقات کا وقت ملا تو میں پہنچ گیا۔ خیر و عافیت پوچھنے کے بعد میں نے میاں نواز شریف کی واپسی کا پوچھا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے، پورے پاکستان کو اس سوال کا جواب چاہیے۔ پوری قوم ان کی واپسی کے لیے بے تاب ہے۔
وہ بھی پاکستان واپسی کے لیے تیار ہیں۔ پہلے بھی وہ واپس آنا چاہتے تھے، پارٹی نے انھیں کئی بار روکا۔ شہباز شریف کا موقف ہے کہ نواز شریف 2018کے انتخابات سے چند دن پہلے جب انھیں سزا سنائی گئی تو وہ مریم نواز کے ہمراہ گرفتاری دینے واپس آگئے تھے۔ تب بھی ہم نے روکا تھا، وہ نہیں رکے تھے۔ اس لیے ان کی واپسی کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے۔

وہ واپس آرہے ہیں، تیاری کی جا رہی ہے۔ پوری پارٹی اس پر کام کر رہی ہے۔ جلد ہی تمام تفصیلات سامنے آجائیں گی۔ بس اب پارٹی سے حتمی مشاورت کے بعد فیصلہ ہوگا۔ شہباز شریف نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم لیگ (ن) ہے، یہاں مشاورت سے فیصلے کرنے کا اصول ہے، سب کی سنی اور مانی جاتی ہے۔ ہم اپنے اندر اختلاف کو برداشت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

میری پارٹی کے لوگ میرے بھی ناقد ہیں اور میں بھی کئی پالیسیوں کا ناقد رہا ہوں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) جب کوئی فیصلہ کر لیتی ہے تو پوری ٹیم اس پر جان لگا دیتی ہے۔ اس لیے فکر نہ کریں، فیصلہ ہو گیا ہے۔ میاں نواز شریف واپس آرہے ہیں اور جلد آرہے ہیں۔ جب وہ واپس آئیں گے تو مخالفین کو پتہ لگ جائے گا ۔

میں نے سوال کیا کہ وزارت عظمی کے بعد کیسا لگ رہا ہے؟کہنے لگے بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ لیکن جتنے دن میرے پاس یہ ذمے داری رہی، میں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ نبھائی ہے۔ میرا کام محنت کرنا تھا، وہ میں نے کی ہے۔ اللہ نے بہت ساتھ دیا۔

آئی ایم ایف اور دیگر اہم معاملات پر بہت کامیابی ملی ہے۔ میری حکومت میں کوئی اسکینڈل نہیں بنا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم ایک پائی کرپشن کی ہے۔ سارے تحفے توشہ خانہ میں جمع کرا کر آیا ہوں۔ خالی ہاتھ گیا تھا،خالی ہاتھ ہی آیا ہوں۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے، میرے پاس تو ڈائری بھی نہیں تھی۔

میں نے پوچھا، آگے کیا کرنا ہے؟ کہنے لگے، میری اس وقت دو ہی ترجیحات ہیں۔ پہلی اپنے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی۔ میں نے قوم سے ان کی واپسی کا وعدہ کیا ہے، وہ پورا کرنا ہے۔ اسی لیے لندن آیا ہوں ۔ اس میں کچھ قانونی رکاوٹیں تھی جو ہم نے دور کی ہیں۔

کچھ آیندہ دنوں میں دور ہوجائیں گی۔ میاں نواز شریف کو پاکستان کے نظام عدل سے انصاف نہیں مل سکا ہے، ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن یہ زیادتی صرف نواز شریف کے ساتھ نہیں ہوئی ہے بلکہ قوم کے ساتھ ہوئی ہے۔ شاید نواز شریف کی ذات کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔

میں نے پوچھا،دوسری ترجیح کیا ہے؟ کہنے لگے ، ملک میں جب بھی انتخابات ہو ںگے ، میری کوشش ہوگی کہ ہم وہ انتخاب جیتیں۔ ہمار ی مکمل تیاری ہے۔

آپ کو ہماری تیاری دیکھ کر حیرانی ہوگی۔ آپ نے دیکھا ہے کہ ہم جب بھی انتخابی میدان میں اترے ہیں، ہم نے میدان مارا ہے۔ ہم نے 2018میں بھی انتخاب جیت لیا تھا۔ نواز شریف کی نا اہلی اور سب کچھ کے باوجود ہم جیت گئے تھے، پھر لاڈلے کو جتوانے کے لیے آر ٹی ایس بٹھا دیا گیا۔

میں نے کہا انتخابات کب ہوںگے ؟کہنے لگے، یہ ہمار اکام نہیں۔ ہم نے بر وقت ہی نہیں بلکہ وقت سے پہلے اقتدار نگران حکومت کے حوالے کر دیا ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ جب بھی شیڈول آئے گا، مسلم لیگ (ن) پوری تیاری سے میدان میں آئے گی۔

میں نے پھر سوال کیا کہ انتخابات کب ہوںگے تو کہنے لگے مجھ سے نہیں الیکشن کمیشن سے پوچھو ۔ اگر آئین نے مجھے اختیار دیا ہوتا تو میں تاریخ دے دیتا۔ لیکن یہ اختیار میرے پاس نہیں تھا۔ بلکہ نگران وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن جو تاریخ دے گا، سب کو اس پر آمین کہنا ہے۔ یہی اب قانون ہے۔

نئی مردشماری ایک آئینی تقاضہ تھا۔ ہم نے پورا کیا ہے۔ سب کچھ آئین کے دائرے میں کیا ہے۔اس لیے آگے بھی جو ہوگا آئین کے دائرے میں ہی ہوگا۔ اگر آئین کہتا ہے کہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہو ںگی تو ہوںگی، کون روک سکتا ہے لیکن حلقہ بندیوں کے فوری بعد انتخابات ہو جائیں گے، اس لیے زیادہ وقت نہیں ہے، ایک دو ماہ کی بات ہے۔

ہم دو ماہ پہلے کے لیے بھی تیار ہیں۔ دو ماہ بعد کے لیے بھی تیار ہیں۔ میں نے بطور وزیر اعظم جو بھی کام کیا ہے ۔ اتفاق رائے سے کیا ہے۔ اس لیے تنازعہ والی کوئی بات ہی نہیں۔ ہر فیصلے میں سب شامل تھے۔ مردم شماری کے فیصلے میں بھی سب نے ووٹ دیا ہے، کوئی کیسے اختلاف کر سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس