منافع خوروں کی سفاک شراکت دار ریاست : تحریر نصرت جاوید


نگران حکومت کی تشکیل کے دوران وزارت خزانہ کیلئے جو نام چل رہے تھے ان میں ڈاکٹر شمشاد اختر صاحبہ کا نام بھی ابھرا تو میں گھبرا گیا۔ اپنی گھبراہٹ کا اظہار ٹی وی سکرینوں پر برملا انداز میں کردیا تو چند دوستوں کے فون آئے۔ جن دوستوں نے رابطہ کیا معاشیات کے ذہین طالب علم ہیں۔ ان میں سے تین نے دنیا کی مشہور یونیورٹیوں سے رشک آمیز انداز میں اس علم پر گرفت حاصل کی ہے۔انہیں دکھ ہوا کہ میں ڈاکٹر شمشاد اختر کی تعیناتی کی مخالفت کرتے ہوئے صحافیوں سے مختص عقل کل والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔وہ مصر رہے کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا حقیقی حل بازار کے حقائق تسلیم کرنا ہے اور روپے کی قدر کے ضمن میں ما رکیٹ سچی ہے۔ ہماری حکومت اور خاص طورپر گزشتہ چند مہینوں میں ڈالر شکن تصور ہوتے اسحاق ڈار صاحب نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو جگاڑ لگاتے ہوئے مستحکم رکھا تھا۔ بازار میں موجود حقائق کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے تاہم جو استحکام دکھایا گیا وہ پاکستان کی معیشت کو طویل المدت تناظر میں غیرمستحکم کرچکا ہے۔میرے دوست اصرار کرتے رہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر وزارت خزانہ کا منصب سنبھالیں گی تو حکومتی پالیسیوں میں حقیقت پسندی کا رحجان بڑھے گااور بالآخر کچھ عرصے کی مشکلات کے بعد ہماری معیشت مستحکم ہونا شروع ہوجائے گی۔علم معاشیات کی مبادیات کی بابت لاعلم ہوتے ہوئے میرے پاس اپنے دوستوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے ٹھوس دلائل میسر نہیں تھے۔شرمندہ ہوا اپنی جہالت کی بنا پر خاموش رہا۔
ڈاکٹر صاحبہ کے وزارت خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی ڈالر اگرچہ ایک بار پھر بلندی کی جانب اڑنا شروع ہوگیا۔گزشتہ ہفتے کے ابتدائی دو دنوں میں ڈالر کی قدر میں یک دم 6روپے کے قریب اضافہ ہوا۔ منگل کے دن جب ہم پاکستانیوں کی اکثریت ٹی وی سکرینوں پر نگاہیں مرکوز رکھے ایبٹ آباد کے نواحی بٹ گرام میں 600فٹ کی بلندی پر معلق بچوں کے بارے میں فکر مند تھی تو بازار نے روپے کو مزید بے قدر بنانا شروع کردیا۔بدھ کی صبح یہ کالم لکھنے تک امریکی ڈالر 300روپے کے مسادی ہونے ہی والا تھا۔سرکاری نرخ کے مقابلے میں کھلے بازار میں جائیں تو ڈالر تقریبا نایاب ہوچکا ہے۔تعلق واسطوں سے کوئی رابطہ ہوجائے تو سرگوشیوں میں ایک ڈالر کے لئے 310روپے سے 315روپے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
آئی ایم ایف بضد ہے کہ حکومت پاکستان اس امر کو یقینی بنائے کہ ہمارے ہاں ڈالر کے سرکاری اور کھلے بازار کے نرخ میں ڈیڑھ فی صد سے زیادہ کا فرق نہ ہو۔اس شرط پر کامل عمل درآمد کے لئے قومی خزانے میں اتنے ڈالر موجود نہیں جنہیں ذہانت سے مارکیٹ میں چلایا جائے تو کھلے بازار کے نرخ معقول ہوجائیں۔مجبورا سرکاری نرخوں کو بازار میں حاوی حقیقتوں کے روبرو سرنگوں ہونا پڑرہا ہے۔
محدود آمدنی والے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کے لئے ڈالر کا نرخ خاص اہمیت کا حامل نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری روزمرہ زندگی مگر اس نرخ کی بدولت بے تحاشہ مشکلات سے دو چار ہوجاتی ہے۔روپے کی قدر گرتی ہے تو فی الفور پٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھے تو ٹرانسپورٹ کے اخراجات روزمرہ ضرورت کی اجناس کو بھی مہنگا بنا دیتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ تکلیف دو وہ اضافہ ہے جو بجلی کے بلوں میں نمودار ہوکر ہمارے دل بجھا دیتا ہے۔
ماہرین علم معاشیات ان تلخ حقائق کی جانب توجہ دینے کو مگر آمادہ نظر نہیں آرہے۔ اپنے علم کی مبادیات اور کلیدی اصولوں کے اطلاق ہی کو کڑوی گولی کی طرح ملک کی معاشی صحت یقینی بنانے کے لئے لازمی تصور کرتے ہیں۔میرے عالم فاضل دوست Data Pointsیا اعدادوشمار کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ان پوائنٹس سے عقیدت کے باوجود شاذہی ان کی زبانی یہ سناکہ پاکستان کے کتنے فی صد عوام کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے ماہوار سے زیادہ نہیں۔گزشتہ ایک ہفتے سے مجھے کئی ایسے لوگ ملے ہیں جن کی ماہوار آمدنی 35ہزار ورپے تک محدود ہے۔ اوسطا ان کے دو یا تین بچے بھی ہیں۔ ان کے ہاں اس مہینے کے آغاز میں جو بل آیا وہ پانچ سے سات ہزار روپے کے قریب تھا۔ اس بل کی ادائیگی کے بعد وہ دیگر گھریلو اخراجات پورے کرنے کی سکت سے محروم نظر آئے۔
ابتدا ایسے افراد اپنے لہجے اور زبان کا استعمال کرتے ہوئے بے بس ومجبور سنائی دیتے رہے۔گزشتہ ایک ہفتے سے مگر ان کا لہجہ تلخ ہونا شروع ہوگیا ہے۔دلوں میں ابلتے غصے کی حدت ٹھوس اندازمیں محسوس کی جاسکتی ہے۔ان کے دلوں میں جمع ہوئے غبار کا مگر ٹی وی سکرینوں پر چھڑی بحثوں میں ہرگز اظہار نہیں ہوتا۔ حق گو یوٹیوب چینل والے بھی دیگر موضوعات سے اپنی دکان چلاتے ہیں۔ جس ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی فکر ہمارے پالیسی سازوں کو کھائے جارہی ہے وہ شہریوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ شہری اگر خود کو روزمرہ زندگی کے حقیقی مسائل کے حوالے سے بے بس ولاچار محسوس کریں تو ریاست اپنی وقعت کھودیتی ہے۔عام شہریوں کی اکثریت بلکہ اس سے بیگانگی اختیار کرنا شرو ع ہوجاتی ہے۔ بیگانگی کی بھی لیکن ایک حد ہوتی ہے ۔ اس حد سے آگے غصے کے مراحل شروع ہوجائیں تو معاشروں کو خلفشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیلتے ہیں۔ اس خلفشار اور عدم استحکام کے ہوتے ہوئے محض معاشی استحکام کی توقع خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
اپنی سرشت میں ہم ارتقائی اندازمیں سرمایہ دارانہ نظام میں نہیں ڈھلے۔ ہماری عمومی ثقافت اور روزمرہ رویہ ابھی تک نیم سرمایہ دارانہ ہے۔ایسے معاشرے میں عوام کو بازار میں موجود حقائق کے سپرد کردیا جائے تو فقط منافع خوروں ہی کی چاندی ہوتی ہے اور ریاست ان کی سفاک شراکت دار نظر آتی ہے۔عوام کو تسلی اور امید دلانے کے لئے ریاست کو بازار کے معاملات میں شفیق نگہبانوں کی طرح مداخلت کرنا ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت