مملکت اے مملکت محمود شام
بہت انہونیاں اب ہونے والی ہیں
بہاریں بھی خزاں اب ہونے والی ہیں
مشکل یہ ہے کہ میں ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی ہوں۔ ارد گرد جب حادثے، واقعے، انکشافات ہوتے ہیں تو صحافی اور شاعر دونوں کے درمیان اظہار کی جنگ ہونے لگتی ہے۔ صحافی کو تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ لیکن شاعر کو ایسی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ 10 اگست کو کچھ ہوا تو شاعر محمود شام نے مذکورہ بالا شعر فیس بک پر ڈال دیا۔ اب جب صدر مملکت جناب عارف علوی کا مشہور زمانہ ٹویٹ آیا تو صحافی محمود شام کو شاعر محمود شام پر رشک آنے لگا۔ ہمارے جھنگ کے پروفیسر بشارت وقار کہتے ہیں کہ شاعری پیشں گوئیاں کرتی ہے۔
ہم اس وقت منجدھار کے عین بیچ کھڑے ہیں۔ طغیانی بڑھتی جارہی ہے۔ ہماری کشتی ڈول رہی ہے۔ ناخدا محدود ہوتے جارہے ہیں۔ غور کیجئے کہ اس وقت ملک مجموعی طور پر غیر سیاسی، غیرجماعتی، غیر نمائندہ ہے۔ قومی اسمبلی نہیں ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں نہیں ہیں۔ 1973 کے آئین نے جمہوری تسلسل کیلئے سینیٹ کا ادارہ تشکیل دیا تھا۔ اسے بھی ایسا انگوٹھا چھاپ بنادیا گیا ہے کہ وہ جمہوری ڈھانچے کی اس طرح نمائندگی نہیں کرتا۔ ان ایوانوں کا مقصد کسی بھی مسئلے پر تفصیلی بحث ہوتا ہے۔ اس سے عوام کی نمائندگی کے کئی پہلو نکلتے ہیں۔ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس میں احساس عدم تحفظ میں مبتلا مقتدرہ پیش پیش ہوتی ہے۔ لیکن قدرت کا اپنا ایک عمل ہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون۔ پوری دنیا میں اب صدیوں کی ریاضتوں اور تجربوں کے بعد جن ملکوں میں ایک سسٹم بن گیا ہے ۔ بلدیاتی اداروں سے قومی اسمبلی تک اس سے وہاں کا ہر فرد اس احساس سے سرشار ہوتا ہے کہ ہر فیصلے میں اسے بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں ایسا وقت کبھی بھی نہیں آیا۔ جب یہاں کے ہر فرد نے یہ محسوس کیا ہو کہ وہ ملک کے اہم فیصلوں میں شریک ہے۔ سینیٹ میںعوام کا ووٹ براہ راست نہیں ہوتا۔انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتی ہیں۔ اس کے ریٹ بھی ہر الیکشن میں نئے سرے سے کھلتے ہیں۔
کوئی اس خلا کی شدت محسوس کرے نہ کرے۔ لیکن تاریخ اور جغرافیہ کے اعصاب پر یہ خالی پن اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ صحرائے ربع الخالی کا منظر ہے۔ بلدیاتی نظام ہے۔ لیکن اختیارات کامل نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں بھی عوام کی شرکت یقینی نہیں ہے۔ اگر صرف تین ماہ کی آئینی مدت کی بات ہو تو سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ اس میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ ملک بھر میں ایک سیاسی جمہوری عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے دوران لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ تعصبات دب جاتے ہیں۔ جڑانوالہ جیسے واقعات نہیں ہوتے۔ تاریخ کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انتخابی مہم کے ذریعے پورے ملک میں عوام اپنی افادیت اور اہمیت خیال کرتے ہیں۔
موجودہ انتشار، بے راہ روی، بے یقینی 1985 سے شروع ہونے والے۔ نیم دلانہ جمہوری عمل کا واضح۔ منطقی اور تاریخی نتیجہ ہے۔ میں بار بار 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا حوالہ اس لیے دیتا ہوں کہ یہاں سے کبھی آئین میں عوام کی رائے کو مقتدر حیثیت نہیں دی گئی۔ کسی مسئلے پر اسمبلیوں میں باقاعدہ بحث نہیں ہوتی۔ ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں جاکر مسئلے پر عوام سے بھی تبادلہ خیال نہیں کرتے۔ 1985 کے غیر جماعتی اور1988 کے جماعتی انتخابات کے بعد بھی منتخب حکمرانوں کو پورا اقتدار نہیں ملتا ہے۔ البتہ کرپشن کے پورے مواقع میسر آتے ہیں۔
1988 سے سنجیدگی سے غور کریں کہ ہم اپنے باشعور، جفا کش، محنتی کروڑوں افراد کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کررہے۔ 23کروڑ میں سے صرف ایک کروڑ ہوں گے جو شاہی محلات، ایوانوں کی غلام گردشوں میں گھومتے ہیں۔ بغیر بحث کیے بل منظور کرتے ہیں۔ یہ انتخابیے کہلاتے ہیں۔ اشرافیہ کہلوانا بھی پسند کرتے ہیں۔ اس طرح عوام کی اپنی حکمرانی میں کوئی شرکت نہیں ہے۔ یہی افراد جب باہر کسی ملک میں جاتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں اور کار گزاری سے اپنا مقام بنالیتے ہیں۔
کسی زمین میں جب فی ایکڑ کاشت بڑھانی ہوتی ہے تو آپ زمین کا ایک ایک انچ سیراب کرتے ہیں۔ کھاد فراہم کرتے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں پوری توجہ دیتے ہیں۔ یہی حال اس کشتِ ویراں کا بھی ہے۔ جہاں 60فی صد نوجوان ہیں۔ ان کے دست و بازو میں توانائیاں ہیں۔ کیا ہم ان سب کی صلاحیتوں کو ملکی ترقی کیلئے بروئے کار لارہے ہیں۔ ہماری مقتدرہ نے Electablesکا ایک اشرافی طبقہ پیدا کرلیا ہے۔ انہیں کبھی کسی پارٹی میں شرکت کا حکم دیا جاتا ہے۔ کبھی دوسری اور کبھی راتوں رات نئی پارٹی وجود میں لائی جاتی ہے یہ تجربے پاکستان کے قیام کے چھٹے ساتویں سال ہی شروع ہوگئے تھے۔ ان کے نتیجے میں شخصیتیں شہید بھی ہوئیں۔ ملک دو لخت ہوا۔ چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف جذبات اور شکایتیں پیدا ہوتی رہیں۔ اب پنجاب کے نوجوانوں میں بھی محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے۔
2023 میں پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے 76ویں سال میں عوام کی اکثریت یعنی 22 کروڑ میں احساس محرومی ہے۔ سیاسی سماجی بے یقینی ہے۔ 7کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے ہیں۔ معاشی طور پر بد ترین صورت حال ہے۔ ایک ڈالر 300روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔ پیٹرولیم کی مصنوعات بھی 22کروڑ کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ ملک کی قیادت کے دعویدار، ملک میں آنے کو تیار نہیں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد یقینا ایک آئینی عمل ہے لیکن سب نے دیکھ لیا کہ یہ کتنا آئینی ہے۔ اور اس کے بعد قوم کس اذیت سے گزر رہی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں حکمراں بننے والوں نے اپنے سارے مقدمات اسمبلیوں میں قانون سازی کے ذریعے ختم کروالیے۔ اور اپنی حکومت ختم ہوتے ہی وزیر اعظم ملک سے باہر چلے گئے۔ اپنے عوامی رابطے سے جو پارٹی مقبول ہورہی تھی اس کو مختلف مقدمات اور قوانین کے ذریعے سیاسی میدان سے باہر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کے جواز سے تین ماہ کی آئینی مدت میں انتخابات نہیں کروائے جارہے ۔ کسی مقتدر کو یہ احساس ہے کہ یہ غیرنمائندہ نگراں دور جتنی طوالت اختیار کرے گا۔ سیاسی اور معاشی استحکام نصیب نہیں ہوگا۔ پنجاب اور کے پی کے کی سیاسی، سماجی، اقتصادی، انتظامی صورت حال اس کا بین ثبوت ہے۔ حادثات کے بعد ہماری انتظامیہ بہت متحرک ہوجاتی ہے۔ جشن کا سماں ہوتا ہے۔ لیکن فسادات، دہشت گردی،حادثات اور آفات ناگہانی سے پہلے کی روم تھام، حفظ ماتقدم کی شرح بہت ناقص ہے۔ یعنی ہماری بصیرت، انٹیلی جنس میں مطلوبہ مہارت نہیں ہے۔ بھرپور انتخابی سیاسی عمل شروع کروائیں۔
سیاسی اور اقتصادی طور پر اس عظیم مملکت کو صحرائے ربع الخالی نہ بنائیں۔ ریت بہت ظالم ہے۔ یہ تہذیبیں چاٹ جاتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ