اتوار کے دن سے یہ کالم لکھنے کے علاوہ ٹی وی سکرینوں پر بھی ہذیانی کیفیت سے مغلوب ہوا اپنے خدشات کا اظہار کئے چلے جارہا ہوں۔یہ بات مگر قریب ترین دوستوں کو بھی سمجھانہیں پایا کہ اتوار کے روز ایک ٹویٹ لکھ کر ایوان صدر میں براجمان عارف علوی نے درحقیقت پاکستان کے ریاستی بندوبست کی بابت پورے عالم کو چونکادیا ہے۔موصوف کا اللہ کو گواہ بناکر ریکارڈ پر لایا شکوہ نہایت مہارت سے یہ دعوی کررہا ہے کہ ہمارے ہاں کی نظر نہ آنے والی حکومت اگر چاہے تو اپنی ترجیح کے مطابق پاکستان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئے کسی قانون کو صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اجرائی دستخطوں کے بغیر بھی بروئے کارلاسکتی ہے۔ موصوف کے دعوی پر اعتبار کریں تو ایوان صد ر میں بٹھایا (اور میں یہ لفظ سوچ سمجھ کرلکھ رہا ہوں) شخص ریاستی اور حکومتی معاملات کی بابت قطعا غافل رکھا جاتا ہے۔وہ اپنے دفتر آئے کسی قانون کو لوٹانے کا حکم صادرکرے تو اس کی تعمیل نہیں ہوتی۔ صاف انکار کرنے کے بجائے صدر کو بلکہ اس کا ماتحتی عملہ اِس دھوکے میں مبتلارکھتا ہے کہ احکامات پر عمل ہورہا ہے۔
عارف علوی کی بتائی کہانی پراعتبار کریں تو کلاسیکی داستانوں کے بے شمار ایسے قصے یاد آجاتے ہیں جہاں بادشاہ یا مہاراجہ کہلاتے حاکم کو اس کے چند کائیاں درباری سازشی گروہ کی صورت یکسوہوکر مغوی کی صورت اپنے قبضے میں رکھتے ہوئے اس کے نام سے کاروبار مملکت چلاتے تھے۔عارف علوی اس ضمن میں اگرچہ خوش نصیب ثابت ہوئے۔ ان کے دور میں ٹویٹ کی سہولت میسر ہوچکی ہے۔ ان کے ساتھ دھوکہ ہوگیا تو اتوار کی سہ پہر سوشل میڈیا پر اسے بے نقاب کردیا۔
سچ بالآخر ہم عام پاکستانیوں کے روبرو آئے گا یا نہیں، اس کے بارے میں اعتمادسے کچھ لکھنے کے قابل نہیں ہوں۔پاکستان کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے دوست یا دشمن ممالک کو مگر عارف علوی نے یہ خبر پہنچائی ہے کہ پاکستان کی افسر شاہی یا پارلیمان نظر آنے والے صدر (یا وزیر اعظم) کے تابع نہیں ہوتے۔ان کا مالک ومختار کوئی اور ہے۔وہ اس کے اشارہ پر کٹھ پتلیوں کی صورت عمل کرتے ہیں۔عارف علوی کے ٹویٹ کو میرے بیان کردہ تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کے کسی بھی دوست یا دشمن ملک کو اب وطن عزیز کے صدر(یا وزیراعظم) سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔دیگر ممالک کی اولیں ترجیح یہ ہونا چاہے کہ پاکستان کے حقیقی مالک ومختار لوگوں سے روابط بڑھائیں اور یہاں نظر آنے والی حکومتوں کے نمایاں افراد کو فیصلہ سازوں کا روپ دھارے مسخرے ہی شمار کریں۔ عارف علوی کے لکھے ٹویٹ کی بدولت دنیا کے روبرو آئے اس پہلو پر لیکن ہمارے ذہن ساز بھرپور توجہ دینے کو آمادہ نہیں۔ ٹی وی سکرینوں اوریوٹیوب چینلوں پر براجمان قانون ساز فقط یہ طے کرنے میں الجھے ہوئے ہیں کہ عارف علوی کے ٹویٹ کے بعد تحریک انصاف کے بانی اور سرکردہ اراکین کے خلاف آرمی ایکٹ اور سرکاری رازوں سے متعلق قوانین کے تحت سنگین نوعیت کے مقدمات چلائے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ جو بحث جاری ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پیر کے روز ایک خصوصی عدالت کے روبرو پیش کردیا گیا ہے۔ وہ عدالت سرکاری رازوں کے مبینہ طورپر افشا کرنے کے جرم کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔اس کی کارروائی سرکاری رازوں کی حساسیت کی بنیاد پر خفیہ رکھی جائے گی۔ فی الوقت سرکاری راز نظر بظاہر پاکستان کے امریکہ میں متعین سابق سفیر کا لکھا ایک سائفر پیغام ہے۔ایسا پیغام خفیہ زبان میں لکھا جاتا ہے۔جسے محض چند افراد ہی پڑھ یا ڈی کوڈ کرسکتے ہیں۔ڈی کوڈ کرنے کے بعد ایسے پیغام کا مستعمل زبان میں جو متن تیار ہوتا ہے اسے پانچ سے زیادہ ریاستی اور حکومتی عہدے دار دیکھنے اور پڑھنے کے مختارنہیں۔ پیغام کی جو نقل ان حکام کے لئے تیار ہوتی ہے اسے ہر صورت وزارت خارجہ کو لوٹانا ہوتا ہے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہیں بطور وزیراعظم پاکستان مذکورہ پیغام کی جو نقل بھیجی گئی تھی اسے دیکھنے کے بعد انہوں نے اسے واپس نہیں لوٹایا تھا۔ جلسہ عام میں ایک بند لفافہ لہراتے ہوئے ان تک پہنچی نقل کا کلیدی پیغام لوگوں کو اشتعال دلانے کے لئے عیاں کردیا۔ بعدازاں ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ دعوی بھی کیا کہ ڈی کوڈ ہوئے پیغام کی جو نقل ان تک آئی تھی وہ ان سے گم ہوگئی ہے۔
فرض کرلیتے ہیں کہ عارف علوی کے دستخطوں کے بغیر پہلے سے موجود سرکاری رازوں سے متعلق قانون میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کروائی ترمیم کی اب کوئی وقعت نہیں رہی۔ تب بھی پرانے قانون کے مطابق ڈی کوڈ ہوئے پیغام کے متن کا گمہوجانا ایک سنگین جرم ہی تصور ہوگا۔ اعلی عدالتیں اگر عارف علوی کے ٹویٹ کے بعد حال ہی میں متعارف کروائی ترامیم کو قابل اطلاق تسلیم کرنے سے انکار کردیں تب بھی سابق وزیر اعظم اور ان کے قریبی معاونوں کو بتانا ہوگا کہ گم ہوئی نقل کہاں ہے۔عارف علوی کی اتوار کے روز ٹویٹر کے ذریعے بروئے کار لائی ہوشیاری لہذا ان کے محسن ومربی یعنی عمران خان کے کام نہیں آئے گی۔ ان کی مشکلات میں شاید اتنا اضافہ ہو جائے کہ وہ ہوئے تم دوست جس کے پکارنے کو مجبور ہوجائیں گے۔
عارف علوی نے ٹویٹ کے ذریعے جس تماشے کو بھڑکایا ہے وہ بالآخر موصوف کے لئے بھی سنگین مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔پیر کے روز عارف علوی نے اپنے گریڈ 22کے سیکرٹری وقار احمد کو کوتاہی یا میری دانست میں دھوکہ دہی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے اپنے دفتر سے دیس نکالا دینے کا حکم جاری کیا۔ مذکورہ حکم کی فوری تعمیل کے بجائے گریڈ 22کے افسر نے تحریری طورپر عارف علوی کو غلط بیانی کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ گریڈ22کے افسر کا یہ دعوی ہے کہ جو قوانین صدر کے دستخطوں کے لئے اس کے دفتر بھجوائے گئے تھے وہاں سے ایوان صدر ہی میں قائم ان کے سیکرٹری کے دفتر میں بھی واپس نہیں آئے تھے۔انہیں پارلیمان کو نظرثانی کے لئے باقاعدہ انداز میں لوٹانا تو بہت دور کی بات ہے۔صدر مملکت کو گویا ان کے ماتحت نے غلط بیانی یا میری دانست میں جھوٹ کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔وطن عزیز میں کسی نہ کسی فورم کو اب لازما یہ طے کرنا ہوگا کہ عارف علوی یا ان کے ماتحت میں سے سچا کون ہے؟
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت